اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قطری وزیراعظم شیخ محد بن عبدالرحمان آل ثانی نے کہا کہ غزہ میں 10 اکتوبر سے شروع ہونے والی سیز فائر صرف ایک وقفہ ہے، یہ مکمل جنگ بندی نہیں ہے۔
انھوں نے اسرائیل فلسطین تنازع کے اصل اسباب کو حل کیے بغیر پائیدار امن کے حصول کو ناممکن قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ محض غزہ میں سیز فائر کے ذریعے خونریزی کو روک دینا کافی نہیں بلکہ فلسطینیوں کے ریاستی حقوق اور مغربی کنارے سمیت تمام تنازعات کو حل کرنا ہوگا جس کے لیے تنازع کی جڑ کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔
قطری وزیراعظم نے کہا کہ غزہ جنگ بندی ابھی حتمی نہیں ہے اور اس کے ثمرات اس لیے نہیں مل رہے کیوں کہ یہ صرف غزہ کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مغربی کنارہ اور فلسطینیوں کے اپنی خودمختار اور آزاد ریاست کے حق کا معاملہ ہے۔
انھوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ قطر اور امریکا مل کر ایک ایسے امن وژن کو آگے بڑھائیں گے جو دونوں قوموں کے لیے انصاف اور دیرپا امن کی بنیاد بنے گا۔
قطری وزیراعظم نے کہا کہ یہ تب ہی ممکن ہے جب اسرائیل مکمل طور پر غزہ سے اپنی افواج نکال لے، غزہ میں استحکام بحال ہو اور لوگوں کی آمد و رفت آزادانہ ممکن ہو۔
انھوں نے شکوہ کیا کہ اسرائیل نے جنگ بندی کے باوجود رفح کراسنگ کھولنے میں تاخیر کی جسے امریکی امن منصوبے میں ضروری قرار دیا گیا تھا۔
قطری وزیراعظم نے کہا کہ قطر، ترکیہ، مصر اور امریکا جنگ بندی کے اگلے مرحلے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ جس میں ایک ٹیکنوکریٹ فلسطینی حکومت کی تشکیل اور بورڈ آف پیس کا قیام بھی شامل ہے۔
تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ دوسرا مرحلہ بھی عارضی ہوگا کیونکہ حقیقی مسئلہ غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے اور فلسطینی ریاست کے حق کا ہے۔
قطری وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی حماس سے براہِ راست بات چیت نے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی میں بریک تھرو دیا۔
حماس کی میزبانی کرنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ قطر محض ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے تاکہ فریقین بات کر سکیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی ایک طرف ہیں۔ ہمارا کردار مذاکرات کو جاری رکھنا اور مثبت نتائج تک پہنچانا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ قطر کے سب سے سخت ناقد وہی ممالک ہیں جو بحران کے وقت قطر سے ثالثی کی درخواست کرتے ہیں۔ جس میں اشارہ اسرائیل کی طرف تھا۔