انتہاپسندی اور پاکستان

پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے گزشتہ روز انتہائی اہم پریس کانفرنس کی ہے، اس پریس کانفرنس میں ملک کو درپیش کثیرالجہتی چیلنجز کے بارے میں بھی کھل کر اظہار خیال کیا ہے اور ملک میں جاری سیاسی بحث ومباحث اور بیانات کے حوالے سے بھی دوٹوک الفاظ میں مؤقف پیش کیا ہے۔

انھوں نے واضح کیا کہ کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ عوام کو فوج کے خلاف بھڑکائے۔ مسلح افواج اور اس کی قیادت پر مزید حملے برداشت نہیں کیے جائیں اور ان کا سختی سے مقابلہ کیا جائے گا۔

انھوں نے معنی خیز انداز میں کہا کہ اس کا ’’بغیر دستانے پہنے‘‘ مقابلہ کیا جائے گا۔ پاکستان کی فوج کھڑی ہے، اور کھڑی رہے گی،ہم کہیں نہیں جا رہے۔ جب تک پاکستان ہے فوج رہے گی۔

پاکستان اور پاکستان کے باہر گزشتہ کچھ عرصے سے کچھ قوتیں بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے ایسا زہریلا پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف ہیں جس کا مقصد پاکستان کے عوام میں مایوسی پھیلانا، انھیں یہ تاثر دینا کہ جیسے پاکستان ایک ناکام ریاست بن گیا ہے، عوام کو نظریاتی اعتبار سے کنفیوژ کرنا اور ان کے درمیان نفرتوں کے بیج بونا تاکہ وہ باہم دست وگریباں ہو جائیں۔

یہ قوتیں کون ہیں؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟ اور یہ کہاں سے آپریٹ ہو رہی ہیں، اس کے بارے میں بہت سے حقائق آشکار ہو چکے ہیں جب کہ باقی بھی بتدریج آشکار ہوتے جائیں گے۔ پاکستان برسوں سے دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔

انتہاپسندی نے بیرون ملک پاکستان کا چہرہ مسخ کیا ہے۔ افغانستان کا حکمران طبقہ برسوں سے پاکستان کے بارے میں زہریلا اور ذومعنی پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ اس کا آغاز قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی ہو گیا تھا۔

ماضی کی حکومتیں ہوں یا موجودہ طالبان حکومت، پاکستان کے حوالے سے سب کی ایک جیسی پالیسی رہی ہے اور سب کا مقصد پاکستان میں ایک مخصوص سوچ کو پروان چڑھانا، ایک مخصوص گروہ کی بالادستی قائم کرنا اور پاکستان کی طرف آبادی کے پھیلاؤ کا ہتھیار استعمال کرنا شامل ہے۔

پاکستان میں بھی ایک مخصوص گروہ بڑی چالاکی اور ہوشیاری کے ساتھ اس پروپیگنڈے کا حصہ بنا ہے اور وہ اس پروپیگنڈے کو عوام پر مسلط کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں جب سردجنگ کا اختتام ہوا، تو حالات میں کچھ تبدیلی آنا شروع ہوئی۔

پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ سامنے آیا تو پاکستان میں موجود یہ مخصوص گروہ پہلے درپردہ افغان مہاجرین کو پاکستانی دستاویزات دینے میں مدد فراہم کرتا رہا، انھیں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ فراہم کیے گئے، ووٹر لسٹوں میں ان کے نام شامل کیے گئے اور مہاجر کیمپوں میں سے انھیں نکالنے کے لیے ریاستی امور پر اثرانداز ہوئے۔

اس وجہ سے پاکستان میں آبادی کے تناسب میں بھی فرق پڑا اور پاکستان کے مختلف صوبوں کے اندر معاشی مسائل نے بھی جنم لیا جب کہ جرائم بھی بڑھے۔

پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں یہی طبقہ سہولت کاری کرتا رہا اور ریاست کی پالیسیوں پر اثرانداز ہو کر انتہاپسندی کو پروان چڑھاتا رہا۔ پاکستان کے وسائل کو استعمال کر کے یہ طبقہ بااثر ہوا اور پھر پاکستان کے عوام کے مفادات کے خلاف ہی کام کرنا شروع کر دیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے خیبرپختونخوا کے حوالے سے واضح کیا کہ کے پی میں دہشت گردی چل رہی ہے، مجھے بتادیں گزشتہ پانچ برس میں کے پی میں کس دہشت گرد کو پھانسی پر لٹکایا گیا؟

یہ کہتے ہیں آپریشن نہ کرو، دہشت گردوں سے مذاکرات کرو، کیڈٹ کالج وانا پر حملے کرنے والوں سے ہم کیا بات کریں؟ بلاشبہ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے حوالے سے مختلف حکومتوں کی پالیسیاں ابہام اور کنفیوژن کا شکار رہی ہیں۔

پاکستان میں سیاسی سطح پر ہمیشہ اس بیانیے کو پروان چڑھایا گیا کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ پاکستان کی کئی حکومتوں نے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات بھی کیے لیکن اس کے باوجود صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

دہشت گرد پہلے سے بھی زیادہ طاقت پکڑتے چلے گئے۔ نجی وفود نے بھی کابل جا کر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے لیکن معاملہ پھر بھی حل نہ ہو سکا۔ اب بھی بعض قوتیں اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ یہ پالیسی پاکستان اور اس کے عوام کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوئی ہے۔

ہزاروں بے گناہ پاکستانی خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں شہید ہوئے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے ہزاروں جوانوں نے شہادت پائی ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس قدر نقصانات کے باوجود بعض لوگ یا قوتیں آج بھی یہ کہتی ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔

یہ سوچ اور اپروچ کس کے لیے فائدہ مند ہے؟ دنیا میں شاید ہی کہیں ایسا ہوا ہو کہ کچھ قوتیں اپنے ہی ملک کے عوام کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہوں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا ہے کہ ہمارا تعلق کسی ایلیٹ طبقے سے نہیں ہم مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، خود آرمی چیف ایک اسکول ماسٹر کے بیٹے ہیں، ہم عوام میں سے آئے ہیں، ہمارے افسران میں کوئی کلرک کا بیٹا ہے، کوئی کسی غریب آدمی کا بیٹا ہے، ہمارے افسران اور نوجوان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہورہے ہیں، پاک فوج کا جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ میں جاتا ہے، خوارج کے سامنے کون کھڑا ہوتا ہے؟

کون اپنی جانیں دیتا ہے؟ ہم نے جانیں دینا اور لینا ہوتی ہیں۔ اگر کوئی اپنی ذات اور اپنی نامناسب سوچ کے لیے فوج اور اس کی لیڈر شپ پر حملے کرتا ہے تو یہ عمل درست نہیں۔ ہم نے اس ریاست کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔

انھوں نے کہا کہ 9 مئی کے حملے محض تخریب نہیں بلکہ دشمن کے مفادات کے لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھے، فوجی عدالتوں میں 9 مئی کے مقدمات نمٹا دیے گئے ہیں، جب کہ سول مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

ترجمان نے دہشت گردی کے خلاف ریاستی عزم دہراتے ہوئے کہا، فتنہ الخوارج سے بات چیت نہیں کریں گے۔ یہ لوگ اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں۔ صوبوں، خصوصاً خیبرپختونخوا میں سیاست کے نام پر دہشت گردوں کی سہولت کاری قابلِ مذمت ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں جو باتیں کہی گئی ہیں اور جو نکات اٹھائے گئے ہیں، وہ قابل غور ہیں۔ پاکستان کی سالمیت، بقاء، تحفظ اور تعمیر وترقی کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا لازم ہو چکا ہے۔

پاکستان کے خلاف بیانیے کی جو جنگ مسلط کی گئی ہے، اس کو سمجھنا اور اس کا مقابلہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کے اندر وہ قوتیں جو ایسا پروپیگنڈا کر رہی ہیں یا اس کا حصہ بن رہی ہیں جو پاکستان کے عوام کے اجتماعی مفادات کے خلاف ہیں، ان کا محاسبہ اور احتساب بھی ضروری ہو چکا ہے۔

افغانستان کے ساتھ سرحد کو بند رکھنا اور اسے ایک فول پروف میکنزم کے طور پر آپریٹ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ غیرقانونی تجارت اور غیرقانونی دولت کا پاکستان کے اندر پنپنا اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔

دہشت گرد تنظیمیں اور جرائم پیشہ گروہ اس غیرقانونی تجارت کے دو پہیے ہیں جنھیں چلانے والے وائٹ کالر کریمنلز کارٹلز ہیں۔ ان کے اتحاد کو توڑنا پاکستان کو بچانے کے لیے لازمی ہو چکا ہے۔ بلیک اکانومی پاکستان کے لیے زہر قاتل ثابت ہو رہی ہے۔

افغان ٹریڈ کے نام پر بلیک اکانومی کے پھیلاؤ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح پاک ایران سرحد بھی فول پروف ہونی چاہیے۔ سمندری سرحدوں کی بھی بھرپور نگرانی ہونی چاہیے۔ پاکستان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ پاکستان کو ایک جدید اور ماڈریٹ ریاست بنانے کے لیے انتہاپسندی کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے۔

نصاب تعلیم میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ نصاب تعلیم میں موجود خامیاں دور کرنے کے لیے جدید ذہن کے اہل علم کے ذریعے نیا نصاب تعلیم تیار کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ قانون سازی کے محاذ پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے قوانین کا خاتمہ کیا جانا چاہیے جو تعمیر وترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں یا جو ایک مخصوص طبقے کی مراعات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔

پاکستان میں مڈل کلاس کو پھیلانے کی ضرورت ہے کیونکہ معاشیات کا اصول ہے کہ جب تک مڈل کلاس کا پھیلاؤ نہیں ہوتا، کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان میں مڈل کلاس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے لیے پرانے سماجی نظام میں اصلاحات لانا ناگزیر ہے۔ اس مقصد کے لیے صوبائی حکومتوں کو روایت شکن کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ 
 

Similar Posts