خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جاپان کے وزیراعظم سانی تاکاچی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ریڈار کا اس طرح نشانہ بنانا ایک خطرناک عمل ہے جو طیاروں کی محفوظ پرواز کے لیے ضروری حد سے تجاوز کر گیا اور اس انتہائی افسوس ناک واقعے پر چین سے باضابطہ طور پر احتجاج بھی کیا گیا ہے۔
جاپان کے وزیرِ دفاع شن جیرو کوئی زومی نے ٹوکیو میں اپنے آسٹریلوی ہم منصب رچرڈ مارلس سے ملاقات کے دوران کہا کہ جاپان خطے میں امن اور استحکام برقرار رکھنے کے لیے چین کے رویے کا پرعزم اور پرسکون انداز میں جواب دے گا۔
جاپان نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا چین نے اس کے طیاروں کو “لاک” کیا تھا اور جاپانی طیاروں نے اس پر کیا ردعمل دیا۔
دوسری جانب چینی بحریہ کے ترجمان کرنل وانگ شوئے مینگ نے کہا کہ جاپانی طیارے آبنائے میاکو کے مشرق میں باضابطہ اعلان کردہ کیریئر سے اڑان بھرنے کی تربیت میں مصروف چینی بحری بیڑے کے قریب آئے اور خلل ڈالتے رہے۔
چینی بحریہ کے ترجمان وانگ نے سرکاری سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ جاپان کا بیان غلط اور اس کے اقدامات پرواز کی سلامتی کو شدید خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہیں۔
وانگ کا کہنا تھا کہ ہم جاپانی سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بہتان تراشی اور بدنام کرنے کا سلسلہ بند کرے اور اگلے مورچوں پر کیے جانے والے اقدامات پر قابو رکھے، چینی بحریہ قانون کے مطابق ضروری اقدامات کرے گی تاکہ اپنی سلامتی اور جائز حقوق و مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ جاپان اور چین دونوں کی جانب سے دعویٰ کردہ جزیروں کے قریب پیش آنے والا یہ واقعہ گزشتہ کئی برسوں میں دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان سب سے سنگین واقعات میں سے ایک قرار دیا رہا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجے میں دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ چین اور جاپان کے درمیان تعلقات گزشتہ ایک ماہ کے دوران کشیدہ ہو گئے ہیں، جب سے تاکاچی نے خبردار کیا تھا کہ تائیوان کے خلاف چین کی جانب سے کسی قسم کی فوجی کارروائی کی وجہ سے جاپان کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہوا تو اس کا جواب دے سکتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کسی دوسرے طیارے کی جانب ریڈار بیم کرنا ایک دھمکی آمیز قدم تصور کیا جاتا ہےکیونکہ اس سے ممکنہ حملے کا اشارہ ملتا ہے اور ہدف بننے والے طیارے کو دفاعی انداز میں راستہ تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔