بھیانک چوریوں کے المناک انجام

ملک کے سب سے بڑے شہر میں کھلے ہوئے گٹروں کا ذمے دار ڈھکن چوری کرنے والوں اور نشئی افراد کو قرار دیا جاتا ہے، جو چند روپوں کے حصول کے لیے یہ بھاری ڈھکن کسی نہ کسی طرح چرا لیتے ہیں اور محفوظ مقام پر لے جا کر یہ سیمنٹ سے بنے ڈھکن توڑ کر لوہا نکال لیتے ہیں اور کباڑی کو جا کر فروخت کر دیتے ہیں۔

کباڑی کچھ دیکھے اور پوچھے بغیر لوہا تول کر پیسے دے دیتا ہے جو حاصل کر کے ڈھکن چور اپنی ضرورت پوری کر لیتا ہے اس کی بلا سے جس گٹر سے اس نے لوہے کے حصول کے لیے ڈھکن چرایا ہے اس کھلے ہوئے گٹر میں کوئی معصوم بچہ گر کر ہلاک ہو سکتا ہے۔ کراچی میں تقریباً دو درجن معصوم بچے ان کھلے ہوئے گٹروں میں گر کر جاں بحق ہو چکے ہیں۔ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ دن کے وقت کوئی بچہ کھلے ہوئے گٹر میں گرے اور خوش قسمتی سے کوئی بڑا دیکھ لے اور بچے کو بچا لے مگر ایسا کم ہی ہوتا ہے کیوں کہ گٹر گہرائی میں بنے ہوتے ہیں اور ان گٹروں پر سیمنٹ کے ڈھکن رکھ کر ذمے داری پوری کر لی جاتی ہے۔

شہر میں اوور ہیڈ برجز بنے ہوئے ہیں، جو لوہے کے ہوتے ہیں جن کی سیڑھیوں اور سڑک کراس کرنے والے راستے کے دونوں طرف لوہے کی گرلیں لگائی جاتی ہیں جن میں استعمال کیا گیا لوہا اتنا کمزور ہوتا ہے جسے باآسانی بازار میں چند روپوں میں ملنے والی آری کے بلیڈ سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس لوہا چوری میں بھی بے روزگار افراد یا نشئی ملوث ہوتے ہیں اور یہ لوہا چوری کرکے کباڑیوں کو جا کر فروخت کر دیتے ہیں اور کباڑی سب کچھ جانتے ہوئے لوہا سستے داموں خرید لیتے ہیں۔ کباڑیوں کو یہ لوہا کوڑیوں کے مول مل جاتا ہے اور وہ جو رقم لوہا چور کو دیتے ہیں وہ بغیر مول تول کیے لے کر اپنی ضرورت پوری کر لیتا ہے۔

یہ لوہا خریدنے والے کباڑیوں کو پتا ہوتا ہے کہ سیمنٹ لگا یہ سریا گٹروں کے سیمنٹ کے ڈھکن توڑ کر حاصل کیا گیا ہے اور صاف سریا اوورہیڈ پلوں کا ہے جو چوری کرکے لایا گیا ہے مگر اسے کوئی غرض نہیں ہوتی کیوں کہ کباڑیوں کو اونے پونے لوہا اور لوہا چوروں کو رقم مل جاتی ہے اور دونوں اپنا اپنا مفاد مقدم رکھتے ہیں۔ اخبارات میں کھلے ہوئے گٹروں اور اوور ہیڈ پلوں کی سائیڈوں سے غائب لوہے کی تصاویر آئے دن شایع ہوتی رہتی ہیں اور یہ چوریاں عام ہو چکی ہیں اور یہ چوریاں کرنے والے شاید یہ جانتے بھی ہوں کہ ان کی یہ چوریاں کتنی بھیانک ہو سکتی ہیں۔

پہلے گٹروں پر لوہے کے بھاری اور بڑے ڈھکن بھی لگائے جاتے تھے جن کو بنوانے پر زیادہ لاگت آتی تھی اور وہ بھی چوری ہو جاتے اور کباڑیوں کے پاس فروخت بھی زیادہ رقم میں ہو جاتے تھے اور گول ہوتے تھے جو بیڑ کے بھی بنے ہوتے تھے اور لوہے کے چوکور ڈھکن بھی گٹروں پر آہنی فریم میں پھنسا کر لگائے جاتے تھے جو لوہے کی موٹی چادروں سے بنوائے جاتے وہ بھی محفوظ نہیں تھے اور چرا لیے جاتے ہیں۔ کباڑی بیڑ کے گول ڈھکن خود توڑ کر آگے فروخت کر دیتے تھے جو لوہے کے مقابلے میں کم نرخوں پر فروخت ہوتے تھے۔

پہلے اخبارات میں ریلوے لائنوں کو جوڑنے والی پلیٹوں اور انھیں مضبوط کرنے کے لیے لوہے کے موٹے نٹ بولٹ لگائے جاتے تھے جن کو کھولنا نہیں ہوتا تھا مگر پھر بھی لوہا چور کسی نہ کسی طرح انھیں کھول کر کباڑیوں کو فروخت کر دیتے تھے جس سے لوہے کی پٹریاں غیر محفوظ ہو جاتی تھیں اور ٹرینوں کو حادثات کا خطرہ رہتا تھا۔ یہ کام عام چور نہیں بلکہ تخریب کار کرتے تھے جو پٹریاں تک اکھاڑ دیتے تھے تاکہ ٹرینیں حادثات کا شکار ہو جائیں اور مسافروں کا جانی نقصان ہو۔ یہ خبریں بھی اخباروں میں شایع ہوتی تھیں مگر یہ بھیانک تخریب کاری کرنے والے ملک دشمن یا پیسے کے لیے یہ سب کچھ کرتے تھے اور بلوچستان میں ایسے کئی واقعات ہوئے۔

لوہا چوریوں میں سب سے آسان کام گٹروں کے ڈھکن چوری کا ہے جس کی وجہ سے حب کے علاقے میں وہاں کی بلدیہ نے پتھروں کے ڈھکن بنوا کر گٹروں پر لگوائے جو چوری نہیں ہوتے تھے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کے بعض ٹاؤن چیئرمینوں نے ایسے گٹروں کے ڈھکن بنوائے جو لوہے کے نہیں ہیں۔ مضبوط بھی ہیں اور چوری بھی نہیں ہوتے۔

واٹر بورڈ یا ٹاؤن کونسلیں ٹھیکوں پر لوہے سیمنٹ کے جو ڈھکن بنواتے ہیں ان میں سریا اور سیمنٹ کم استعمال ہونے سے وہ معیاری اور مضبوط نہیں ہوتے اور کسی عام گاڑی کی زد میں آ کر ٹوٹ جاتے ہیں اور گٹروں میں گر جاتے ہیں۔ کراچی میں سڑکوں کے درمیان لگے یہ ڈھکن بھاری ٹریفک کا لوڈ برداشت نہیں کرتے اور ٹوٹ جاتے ہیں ایسا ہی نیپا چورنگی پر لگے گٹر کا ڈھکن ٹوٹا اور المناک واقعہ پیش آیا جس نے کے ایم سی اور سندھ حکومت کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

گٹروں کے ڈھکنوں اور اوورہیڈ برجز پر لگی آہنی گرلوں کی چوری یوں تو عام بات ہے مگر حقیقت میں یہ بھیانک اور مذموم چوریاں بن چکی ہیں جن کا انجام المناک اور بچوں کی اموات کا سبب بن چکا ہے اور بلدیاتی ادارے ڈھکن چوری کرنے والوں کو ذمے دار قرار دے کر جان چھڑا لیتے ہیں مگر کمزور ڈھکن بنوانے والے محفوظ رہتے ہیں اور نہ کبھی ڈھکن چور پکڑے جاتے ہیں جن کی وجہ سے یہ عام چوریاں بھیانک اور جان لیوا بن چکی ہیں جن میں گرنے سے بچوں کی اموات ہو رہی ہیں۔

بلدیاتی ادارے ان عام چوریوں کو المناک حادثات کا باعث سمجھیں اور گٹروں کے ڈھکن پتھروں یا کسی اور چیز سے بنوائیں جو چوری نہ ہو سکیں۔ گٹروں کے ڈھکن کے باعث ہونے والی ہلاکتیں کراچی کا اہم مسئلہ بن چکی ہیں جب کہ اوور ہیڈ برجز سے گرلز کی چوریاں جان لیوا بھی بن سکتی ہیں مگر گٹروں کے ڈھکنوں کی چوریاں عام مگر سنگین مسئلہ بن چکی ہیں جس کی روک تھام کے لیے صوبائی سطح پر اقدامات ضروری ہو چکے ہیں ورنہ نہ جانے کتنے اور ابراہیم ان چوریوں میں جان گنواتے رہیں گے۔

Similar Posts