سفیر عاصم افتخار نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ محترمہ صدر میں ابتدا میں سلووینیا کی صدارت اور اس ماہ کونسل کی مؤثر قیادت پر اسے خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔
ہم سلووینیا کے وفد کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے بطور منتخب رکن اپنی دو سالہ مدت کے دوران کونسل کے کام میں جو عزم، محنت اور قیمتی خدمات انجام دیں، وہ قابلِ قدر ہیں۔
میں ابتدا میں سلووینیا کی صدارت اور اس ماہ کونسل کی مؤثر قیادت پر اسے خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔ ہم سلووینیا کے وفد کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے بطور منتخب رکن اپنی دو سالہ مدت کے دوران کونسل کے کام میں جو عزم، محنت اور قیمتی خدمات انجام دیں، وہ قابلِ قدر ہیں۔
ہم سیکرٹری جنرل کی رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں اور UNAMA کی ڈپٹی اسپیشل ریپریزنٹیٹو اور قائم مقام سربراہ، محترمہ جیورجیٹ گینن کی بریفنگ پر ان کے شکر گزار ہیں۔
ہم UNAMA کے کردار اور ان کے اس کام کی قدر کرتے ہیں جو وہ نہایت مشکل حالات میں انجام دے رہے ہیں۔ ہم انسانی صورتحال پر ان کی بصیرت افروز بریفنگ کے لیے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر کے بھی شکر گزار ہیں، اور سول سوسائٹی کی نمائندہ محترمہ نگینہ یاری کے اظہارِ خیال کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔
محترمہ صدر،
طالبان کے اقتدار سنبھالنے کو چار سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ایک ایسا واقعہ جس نے خانہ جنگی کا خاتمہ کیا اور افغانستان کے لیے امید کی ایک کرن پیدا کی، اگرچہ اس کے ساتھ گہری خدشات اور شکوک بھی موجود تھے۔
اچھے ہمسائیگی کے تقاضوں اور ایک پُرامن و مستحکم افغانستان کے لیے ہماری دیرینہ وابستگی اور دلچسپی کے تحت، پاکستان نے اس تمام عرصے کے دوران طالبان حکام کے ساتھ باقاعدہ اور مسلسل رابطہ رکھا۔
صرف اس سال ہی ہم نے افغانستان کے کئی اعلیٰ سطحی دورے کیے، متعدد نئے اقدامات شروع کیے، انسانی ہمدردی کی امدادی کوششوں میں تعاون کیا، سامان کی نقل و حمل میں سہولت فراہم کی، اور تجارت و ٹرانزٹ میں رعایات کا اعلان کیا۔ ہم افغانستان سے متعلق مختلف علاقائی عملوں میں بھی فعال طور پر شریک رہے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ طالبان سے بین الاقوامی برادری کی کئی توقعات وابستہ تھیں بالخصوص اس عہد کی پاسداری کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ آج اس میز پر موجود متعدد معزز ساتھیوں نے بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے۔
بدقسمتی سے بین الاقوامی برادری کے ابتدائی تحفظات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ درست ثابت ہوتے گئے اور مزید گہرے ہوتے چلے گئے۔
آج افغانستان ایک بار پھر دہشت گرد گروہوں اور ان کے پراکسی (Proxy) عناصر کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، جس کے تباہ کن نتائج اس کے ہمسایہ ممالک، خصوصاً پاکستان، کے لیے شدید سکیورٹی چیلنجز اور خطے سے باہر تک اثرات مرتب کر رہے ہیں۔
افسوسناک طور پر طالبان کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس، مؤثر اور فیصلہ کن کارروائیوں کے بجائے ہم نے پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں شدید اضافہ دیکھا ایسے حملے جو طالبان کے زیرِ انتظام افغان سرزمین سے منصوبہ بندی، مالی تعاون اور عمل درآمد کے ساتھ کیے گئے۔
صرف اس سال ہی افغانستان سے آنے والی دہشت گردی کے باعث ہمارے تقریباً 1,200 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ 2022 سے اب تک، پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران 214 سے زائد افغان دہشت گرد، جن میں خودکش بمبار بھی شامل ہیں، کو مارا بنایا جا چکا ہے۔
محترمہ صدر،
افغان سرزمین سے پھوٹنے والی دہشت گردی پاکستان کی قومی سلامتی اور خودمختاری کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے۔ داعش خراسان (ISIL-K)، القاعدہ، ٹی ٹی پی، ای ٹی آئی ایم (ETIM)، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ سمیت متعدد دہشت گرد تنظیمیں افغانستان کی سرزمین پر محفوظ پناہ گاہوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
درجنوں دہشت گرد کیمپ وہاں موجود ہیں جو سرحد پار دراندازی اور خودکش حملوں سمیت تشدد آمیز کارروائیوں کو ممکن بناتے ہیں۔
جیسا کہ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم نے بھی تصدیق کی ہے، ٹی ٹی پی تقریباً 6,000 جنگجوؤں کے ساتھ افغان سرزمین پر موجود سب سے بڑی اقوام متحدہ کی نامزد کردہ دہشت گرد تنظیم ہے۔
پاکستان نے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے دہشت گردوں کی افغانستان سے دراندازی کی متعدد کوششوں کو ناکام بنایا ہے اور بین الاقوامی افواج کے چھوڑے گئے جدید فوجی ساز و سامان کے بڑے ذخیرے ضبط کیے ہیں۔ ان کوششوں کی انسانی قیمت بھی ادا کی گئی ہے جس میں ہماری بہادر سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔
طالبان کی صفوں کے اندر موجود کچھ عناصر ان دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں اور انہیں آزادانہ اور بے خوف سرگرمیوں کے لیے محفوظ راستے فراہم کر رہے ہیں۔
ایسے ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں کہ یہ دہشت گرد گروہ باہمی تعاون کر رہے ہیں جس میں مشترکہ تربیت، غیر قانونی اسلحہ کی تجارت، دہشت گردوں کو پناہ، اور افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف مربوط حملے شامل ہیں۔
اور حیرت کی بات نہیں کہ خطے کا ایک بدخواہ، موقع پرست اور ہمیشہ کی طرح بگاڑ پیدا کرنے والا ملک، پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گرد گروہوں اور پراکسیوں (Proxies) کی مادی، تکنیکی اور مالی سرپرستی میں مزید شدت لانے کے لیے تیزی سے متحرک ہو گیا ہے، جو افغان سرزمین سے کارروائیاں کرتے ہیں۔
ہمارا یقین ہے کہ UNAMA کو اپنی ذمہ داری کے مطابق افغانستان اور خطے میں غیر قانونی تجارت، چھوٹے اور ہلکے ہتھیاروں کے غیر مستحکم کرنے والے پھیلاؤ اور ان کی منتقلی کو روکنے کے لیے اپنی کوششوں کو مزید مضبوط بنانا چاہیے۔
محترمہ صدر،
سنگین سکیورٹی خدشات کے باوجود، ہم نے طالبان حکام کے ساتھ ہر ممکن حد تک رابطہ برقرار رکھا ہے، جس میں دوحہ اور استنبول میں حالیہ مذاکرات کے دور شامل ہیں۔
ہم قطر اور ترکیہ کی حکومتوں کے مخلصانہ تعاون اور کوششوں کے لیے شکر گزار ہیں۔
طالبان کو اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اور قابل تصدیق کارروائیاں کرنا ہوں گی۔
بصورت دیگر پاکستان اپنے شہریوں، اپنی سرزمین اور اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے تمام ضروری دفاعی اقدامات کرے گا۔
ہم UNAMA سے بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ سرحد کی سکیورٹی صورتحال کا غیر جانب دارانہ اور حقائق پر مبنی جائزہ پیش کرے۔ سرحدی جھڑپوں سے متعلق واقعات بنیادی طور پر دہشت گردی اور امن و سلامتی کا مسئلہ ہیں۔
طالبان کی جانب سے اپنے انسدادِ دہشت گردی کے وعدوں کی عدم تکمیل نے ہمارے خطے کے سکیورٹی ماحول کو مزید بگاڑ دیا ہے اور عام افغان شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے، جو ان کی غیر انسانی پالیسیوں اور غلط ترجیحات کے براہِ راست نتائج بھگت رہے ہیں۔
پابندیاں، غیر فعال بینکاری نظام، امداد میں مسلسل کمی، غربت، دہشت گردی، منشیات کی پیداوار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یہ سب آج افغانستان کے سیاسی اور سماجی و اقتصادی ڈھانچے کی بنیادی خصوصیات بن چکی ہیں، اور اس صورتحال کی بڑی وجہ طالبان کے اپنے اقدامات ہیں۔
جیسا کہ آج بھی ذکر ہوا، طالبان کی خواتین اور بچیوں پر جاری پابندیاں اسلامی روایات اور مسلم معاشرے کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتیں، جس کی نشاندہی او آئی سی کے رکن ممالک بھی متعدد مواقع پر کر چکے ہیں۔
پاکستان انسانی حقوق، بالخصوص افغانستان میں خواتین اور بچیوں کے حقوق کے بارے میں بین الاقوامی برادری کے تحفظات سے مکمل اتفاق رکھتا ہے۔
جیسا کہ انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے بھی بتایا، افغانستان کی انسانی صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ 2025 کے ہیومینیٹیرین نیڈز اینڈ ریسپانس پلان میں بڑھتا ہوا مالیاتی خلا اس حمایت میں کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے جو ایک ایسی سیاسی قیادت کے لیے تھی جو اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
محترمہ صدر،
گزشتہ چار دہائیوں سے، پاکستان نے اپنی محدود صلاحیتوں اور ناکافی بین الاقوامی امداد کے باوجود لاکھوں افغان مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔
ہمیں بڑی تعداد میں غیر قانونی غیر ملکیوں، جن میں افغان بھی شامل ہیں اور جن کے پاس کوئی قانونی حیثیت یا دستاویزات نہیں تھیں، سے بھی نمٹنا پڑا جو پاکستان کے لیے سنگین سکیورٹی خطرہ بنے ہوئے تھے۔ یہ قیام کبھی غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کے لیے نہیں تھا۔
اب جبکہ افغانستان میں جنگ ختم ہو چکی ہے، ہماری توقع ہے کہ افغان شہری باوقار، مرحلہ وار اور منظم انداز میں اپنے وطن واپس لوٹیں گے۔
ہم اپنے افغان بھائیوں اور بہنوں کو ہر ممکن معاونت فراہم کرتے رہیں گے، لیکن بین الاقوامی برادری کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے اور اس بوجھ کو زیادہ منصفانہ طریقے سے بانٹنا چاہیے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے وعدے یا تو تاخیر کا شکار ہیں، پورے نہیں کیے گئے، یا بعض صورتوں میں واپس لے لیے گئے ہیں۔ افغانستان کی مشکلات کا ملبہ افغان واپسی کرنے والوں پر ڈالنا بھی زمینی حقائق کے مطابق نہیں۔
پاکستان نے ایک لبرل ویزا پالیسی بھی نافذ کی ہے، جس کے تحت افغان شہری تعلیم، علاج، کاروبار اور خاندانی روابط سمیت مختلف مقاصد کے لیے قانونی طور پر پاکستان کا سفر کر سکتے ہیں۔ صرف طبی بنیادوں پر ہی ستمبر 2023 سے اب تک ہم 5 لاکھ 36 ہزار سے زائد افغان شہریوں کو ویزے جاری کر چکے ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ مسلسل رابطے اور مؤثر انگیجمنٹ کی حمایت کی ہے اور معمول پر لانے کے لیے روڈ میپ تجویز کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا۔
ہم UN کی سربراہی میں جاری دوحہ عمل کے اگلے مرحلوں اور اس کے موزیک اپروچ کے عملی منصوبے کے منتظر ہیں، جو افغانستان کے کثیرالجہتی چیلنجز کو جامع انداز میں حل کرے، جیسا کہ آزادانہ جائزہ رپورٹ میں بھی تجویز کیا گیا ہے۔
محترمہ صدر،
پاکستان ایک پُرامن، مستحکم، باہم جڑا ہوا اور خوشحال افغانستان چاہتا ہے ایک ایسا افغانستان جو اپنے اندر بھی امن کا حامل ہو اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی۔
پاکستان افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی انگیجمنٹ کی بھی حمایت کرتا ہے، بشرطیکہ اس کے واضح مقاصد ہوں، باہمی اقدامات پر مبنی ہو، اور ایک قابلِ عمل و حقیقت پسندانہ روڈ میپ رکھتی ہو جو افغانستان میں دیرپا امن کا واحد مؤثر راستہ ہے۔
ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ دو طرفہ روابط کو ایسے ممالک اپنے منفی ایجنڈوں کے لیے استعمال نہیں کریں گے جو پاک-افغان سرحد اور وسیع تر خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم امید کرتے ہیں کہ طالبان ایک ایسا سازگار ماحول فراہم کریں گے جو مخلصانہ مکالمے کو فروغ دے، ہمارے جائز سکیورٹی خدشات کے لیے حساس ہو، متضاد اقدامات سے گریز کرے اور انکار کی ایسی حالت سے باہر نکلیں، جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔
پاکستان کے لیے افغانستان کی اہمیت خاص ہے۔ جغرافیائی طور پر قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے، لمبی سرحد کے علاوہ گہرے مذہبی و تاریخی روابط، ثقافتی تعلقات اور برادری کے بندھن بانٹنے والے، افغانستان میں امن و استحکام کی خواہش پاکستان سے زیادہ کسی ملک کی نہیں ہے۔
اور افغانستان میں دہائیوں کے تنازعے اور غیر مستحکم صورتحال کے نتائج سے سب سے زیادہ پاکستان نے ہی متاثر ہوا ہے۔ اس لیے پاکستان افغانیوں اور خطے کے بہترین مفاد میں ایک پُرامن اور مستحکم افغانستان کے لیے کام جاری رکھے گا۔
میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔