امریکہ کی ٹرمپ کے خلاف مقدمے پر عالمی عدالت پر نئی پابندیوں کی دھمکی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے خلاف نئی پابندیوں کی دھمکی دے دی ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت اپنے بنیادی قانون میں ایسی ترمیم کرے جس سے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ عالمی عدالت صدر ٹرمپ یا ان کے اعلیٰ حکام کے خلاف کوئی تحقیقات نہ کرے۔ عہدیدار کا کہنا ہے کہ اگر عدالت نے ایسا نہ کیا تو امریکہ اس پر نئی پابندیاں لگا سکتا ہے۔

عہدیدار کے مطابق امریکہ نے عالمی عدالت سے تین مطالبات کیے ہیں جن میں صدر ٹرمپ اور ان کے اعلیٰ حکام سے متعلق کسی بھی ممکنہ تحقیقات کا راستہ مستقل طور پر بند کیا جائے۔

غزہ جنگ کے معاملے پر اسرائیلی رہنماؤں کے خلاف جاری تحقیقات ختم کی جائیں، اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کے مبینہ اقدامات سے متعلق پہلے شروع کی گئی تحقیقات کو باضابطہ طور پر بند کیا جائے۔

امریکی عدالت کا لاس اینجلس میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی روکنے کا حکم

امریکی موقف یہ ہے کہ اگر عالمی فوجداری عدالت نے ان مطالبات پر عمل نہ کیا تو واشنگٹن مزید عدالت کی حکام پر پابندیاں لگا سکتا ہے اور یہاں تک کہ عدالت کو بطور ادارہ بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے، جو کہ پہلے سے جاری امریکی دباؤ کی مہم میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ امریکی حکام طویل عرصے سے، بشمول ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے، عالمی عدالت کو امریکی خودمختاری میں مداخلت قرار دیتے آئے ہیں۔

ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ واشنگٹن نے اپنے مطالبات آئی سی سی کے رکن ممالک، جن میں کئی امریکی اتحادی بھی شامل ہیں، کو پہنچا دیے ہیں اور خود عدالت کو بھی ان سے آگاہ کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ روم اسٹیٹیوٹ کا رکن نہیں ہے، جس کے تحت 2002 میں آئی سی سی کا قیام عمل میں آیا تھا اور جس کے پاس سربراہانِ مملکت سمیت اعلیٰ ذمہ داران کا احتساب کرنے کا اختیار ہے۔ عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ یہ مطالبہ اور نئی ممکنہ پابندیوں کا عندیہ اس سے قبل منظرِ عام پر نہیں آیا تھا۔

ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیدار نے مزید کہا کہ بڑھتی ہوئی تشویش یہ ہے کہ سال 2029 میں عالمی عدالت اپنی توجہ صدر، نائب صدر، وزیرِ دفاع اور دیگر حکام کی جانب موڑے گی اور ان کے خلاف کارروائی کی کوشش کرے گی۔ یہ ناقابلِ قبول ہے اور ہم اسے ہونے نہیں دیں گے۔

وائٹ ہاؤس نے اس معاملے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں آئی سی سی کے ججوں نے غزہ تنازع کے دوران مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو، سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلنٹ اور حماس رہنما ابراہیم المصری کے خلاف وارنٹ جاری کیے تھے۔

مارچ 2020 میں افغانستان میں مبینہ جرائم، جن میں امریکی فوجیوں کے ممکنہ اقدامات بھی شامل تھے، کی تحقیقات شروع کی گئیں۔ 2021 سے عدالت نے امریکی کردار پر توجہ کم ضرور کی، لیکن اس نے باضابطہ طور پر اپنی تحقیقات ختم نہیں کیں۔

امریکہ نے اس سال کے اوائل میں دباؤ بڑھانے کے لیے آئی سی سی کے نو عہدیداروں، جن میں جج اور استغاثہ شامل تھے، پر پابندیاں عائد کیں۔

تاہم عدالت بطور ادارہ اب تک پابندیوں سے محفوظ رہی ہے، کیونکہ ایسی کارروائی سے عدالت کے بنیادی انتظامی امور، تنخواہوں کی ادائیگی سے لے کر بینک اکاؤنٹس تک رسائی اور کمپیوٹر سافٹ ویئر کے استعمال تک، سب متاثر ہو سکتے ہیں۔

غیرملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے درمیان امریکی’گولڈ کارڈ’ ویزا کا اجراء

روم اسٹیٹیوٹ میں ترمیم ایک مشکل اور طویل عمل ہے، جس کے لیے اس معاہدے کی توثیق کرنے والے دو تہائی ممالک کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔

آئی سی سی کے شعبۂ ابلاغِ عامہ، جو عدالت اور اس کی صدارت کی نمائندگی کرتا ہے، نے کہا کہ روم اسٹیٹیوٹ میں ترامیم ریاستی فریقین کے اختیار میں ہیں، تاہم اس نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ آیا واشنگٹن نے صدر ٹرمپ کے لیے استثنیٰ کا باضابطہ مطالبہ کیا ہے۔

اگر عدالت کو بطور ادارہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے روزمرہ انتظامی کام براہِ راست متاثر ہوں گے، جن میں عملے کی ادائیگیوں سے لے کر بینکاری خدمات اور ضروری دفتری سافٹ ویئر تک رسائی شامل ہے۔

Similar Posts