عدالتی فیصلے کے بعد جسٹس طارق جہانگیری سے متعلق بڑی کارروائی

جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف عدالتی فیصلے کے بعد تیزی سے عمل درآمد جاری ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے جسٹس طارق جہانگیری کی تین متفرق درخواستوں پر سماعت کی اور فیصلہ سنایا جس میں اُن کی ڈگری کو جعلی قرار دیا گیا۔

چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے 3 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا تھا۔ جس میں لکھا گیا کہ طارق محمود جہانگیری کو متعدد مواقع دیے کہ وہ اپنا جواب اور متنازع تعلیمی اسناد پیش کریں مگر وہ اس میں ناکام رہے اور اُن کی جانب سے کوئی معقول وجہ بھی سامنے نہیں آئی۔

عدالت نے کہا کہ ایسی صورتحال میں ہمارے پاس مزید کارروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کیونکہ ہائی کورٹ کے جج کے عہدے کے لیے اہلیت فردِ واحد سے متعلق ہوتی ہے اور آئین میں مقرر کردہ اہلیت کا حامل ہونا اعلیٰ عدالت کا جج بننے کے لیے بنیادی اور لازمی شرط ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ طارق محمود جہانگیری جب اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایڈیشنل جج مقرر ہوئے اس وقت درست اور قابلِ قبول ایل ایل بی ڈگری کے حامل نہیں تھے، بعد ازاں مستقل جج بننے کے وقت بھی طارق محمود جہانگیری درست اور قابلِ قبول ایل ایل بی ڈگری کے حامل نہیں تھے۔

عدالت نے لکھا کہ طارق محمود جہانگیری جج تو کیا وکیل بننے کے اہل ہی نہیں تھے، بطور جج تقرری اور ترقی غیر قانونی اختیار کے تحت کی گئی۔

فیصلے میں طارق محمود جہانگیری کی تعلیمی سند کو جعلی قرار دیتے ہوئے انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے عہدے کیلیے نااہل قرار دیا گیا جبکہ عدالت نے انہیں فارغ کرتے ہوئے وزارتِ قانون و انصاف کو جسٹس طارق محمود جہانگیری کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم دے دیا گیا۔

عدالت کی جانب سے تحریری فیصلہ جاری ہونے کے بعد منتظمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ سے جسٹس طارق جہانگیری کا نام اور تصویر ہٹا دی۔

Similar Posts