ہوٹل کی لابی میں جگمگاتا کرسمس ٹری میری توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا کہ یک دم یادوں کی ایک لہر دِل و دماغ میں دوڑ گئی۔ دسمبر، کرسمس، بچپن اور گاؤں، سب ایک سنہری یاد کی صورت آنکھوں کے سامنے آگئے۔ میں نے ہر سال یہ کوشش کی کہ کرسمس کو بچپن کی طرح خوب صورت، سادہ اور یادگار بنا سکوں، مگر دِل میں وہی خوشی، وہی مسرت اور وہی اپنائیت دوبارہ کبھی محسوس نہ ہو سکی جو بچپن کے کرسمس میں ہوا کرتی تھی۔
جب گاؤں سے کراچی شہر آیا تو دُنیا ہی بدل چکی تھی۔ اب تو دسمبر کا آغاز ہوتے ہی شہر میں کرسمس کی تقریبات شروع ہو جاتی ہیں، جب کہ ہمارے گاؤں میں پورا مہینہ کرسمس کی تیاریوں میں گزرتا تھا۔ سردی کی آمد، گھروں کی صفائی ستھرائی اور ڈیکوریشن، مہمانوں کی خاطر تواضع، عبادات، دُعائیں اور روحانی تیاری، سب کچھ ایک ساتھ چلتا تھا۔ وہاں تیاری صرف ظاہری نہیں بلکہ دِل اور رُوح کی بھی ہوتی تھی۔
شہر میں جہاں تقریبات کی چکاچوند ہے، وہیں کرسمس کا حقیقی مفہوم اور مقصد اکثر پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ یہ تہوار اب ایک حد تک کارپوریٹ سیزن بن چکا ہے جہاں کرسمس ٹری، سنتاکلاز، تحفے، سجاوٹ اور روایتی علامات تو موجود ہوتی ہیں، مگر کرسمس کی اصل رُوح اور پیغام کہیں مدھم پڑ جاتا ہے۔ بے شک کرسمس ایک عظیم روحانی دن ہے، مگر اس سے بڑھ کر اس کا سماجی اور اخلاقی پہلو ہی اسے ایک یونیورسل تہوار بناتا ہے، جو محبت، امن، برداشت اور انسانیت کا پیغام دیتا ہے۔ دو ہزار سال پہلے ابن مریم ؑ کی ولادت بھی ایسے ہی حالات میں ہوئی تھی، جہاں ہر طرف افراتفری، مایوسی، ذاتی انا، طاقت کی سیاست اور رسمی مذہبیت کا غلبہ تھا۔ عام انسان کی آواز دب چکی تھی اور اُمید کی کرن دھیمی ہو رہی تھی۔ آج، 2025 میں، کرسمس مناتے ہوئے ایک سوال ہمارے سامنے کھڑا ہے۔
کیا یہ خوش خبری آج بھی ہمیں نئی اُمید دیتی ہے؟
کیا ہماری دُنیا واقعی کرسمس کے حقیقی پیغام کو سمجھتی ہے؟
کیا ہمارے رویّوں، باتوں، کردار اور افکار میں اس پیغام کی جھلک نظر آتی ہے؟
اسی سوال اور اسی پہلو پر یہ مضمون مبنی ہے کہ کرسمس صرف ایک دن نہیں، بلکہ ایک بڑا اہم پیغام ہے؛ انفرادیت اور مادیت سے نکل کر انسانیت اور روحانیت کی طرف سفر کا کارواں ہے۔ یہ ہمیں دوسرے انسانوں کے ساتھ اپنی خوشیاں باٹنے اور دوسروں کی مشکلات حالات میں مدد کرنے کا سبق دیتا ہے۔ جب انسان صرف اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو محدود کرلیتا ہے۔
یاد رہے کہ کرسمس کا سب سے بڑا پیغام الٰہی رحم اور محبت کا وہ عظیم تحفہ ہے جو انسان کے لیے دیا گیا۔ یہ پیغام ہمیں بار بار یہ احساس دلاتا ہے کہ ہمارا خالق، ہماری بشری کم زوریوں اور روحانی پست حالی کے باوجود، ہم سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ اسی محبت کا اظہار وہ اپنی الٰہی قربت کے ذریعے ہماری روزمرہ زندگی میں شکرگزاری، صبر اور اُمید کے جذبے کے ساتھ کرتا ہے۔
انفرادیت سے انسانیت کا سفر
موجودہ دُور میں انسان کے سب سے بڑے دشمن اس کی اپنی اّنا، خودپسندی اور شخصیت پرستی بن چکی ہیں۔ کرسمس کا پیغام ہمیں انفرادیت سے نکل کر انسانیت کی اجتماعی بہتری اور فلاح کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہ تہوار ہمیں اپنی ذات تک محدود رہنے سے اجتناب کرنے اور دوسروں کے لیے اپنے دِل، وقت اور وسائل کھولنے کی دعوت دیتا ہے۔ آج کے ایسے دُور میں، جہاں انسان اپنی ذات کے سوا کسی اور کی ترقی اور بہتری کا کم ہی سوچتا ہے، جہاں خاندان، رشتوں اور اداروں میں بھی ذاتی مفاد کو اولین ترجیح دی جاتی ہے، وہاں کرسمس ہمیں انسانیت، محبت اور اجتماعی بھلائی کے کلچر کی طرف واپس بلاتا ہے۔
مادیت سے روحانیت کی جانب
گذشتہ چند برسوں میں پوری دُنیا، بالخصوص ہمارے معاشرے میں، سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال اور ظاہری نمود و نمائش کے رجحان نے مادیت کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔ نتیجتاً انسان مادّی کام یابی کی دوڑ میں روحانیت سے دُور ہوتا جا رہا ہے۔ کرسمس کا یہ بابرکت وقت ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی روحانی زندگی کا ازسرِنو جائزہ لیں اور اس بات کو یاد رکھیں کہ دُنیا میں رہتے ہوئے صرف مادی اشیا کے حصول کے لیے اپنی رُوح کا سودا ہرگز نہ کریں۔ اصل کامیابی روحانی توازن اور باطنی سکون میں پوشیدہ ہے۔
تاریکی سے روشنی کی جانب
کرسمس انسانوں کو الٰہی نور سے منور کرتا ہے اور تاریکی سے روشنی کی طرف بڑھنے والے مسافروں کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اس دُنیا میں مسافر ہیں اور ہماری اصل منزل ایک روحانی حقیقت ہے۔ اس زمینی سفر میں ہمیں اپنی آخرت، اپنی اخلاقی ذمہ داریوں اور روحانی منزل کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ کرسمس ہمیں اپنی زندگی کے منفی رویّوں، تاریک سوچوں اور گم راہ کن عادتوں، جیسے حسد، نفرت، خود غرضی اور بے حسی سے کنارہ کشی کی تلقین کرتا ہے، تاکہ ہم محبت، امن اور اُمید کے چراغ روشن کر سکیں۔
حلیمی اور عاجزی کی طرف گام زن
کرسمس ہمیں جھوٹی اور وقتی اّنا سے نکال کر حلیمی اور عاجزی کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہ ہمیں غرور، تکبر اور خودپسندی سے دُور رہنے اور اپنے کردار و اخلاق میں انکساری کو اپنانے کی تحریک دیتا ہے۔ کرسمس یاد دلاتا ہے کہ حقیقی عظمت طاقت، دولت یا شہرت میں نہیں بلکہ عاجزی، خدمت اور محبت میں پوشیدہ ہے۔
بدی سے اچھائی کی راہ پر
بدقسمتی سے ہم ایک ایسے معاشرے اور کلچر میں سانس لے رہے ہیں جہاں بدی کو برائی سمجھنا کم اور خود احتسابی سے گزرنا مشکل ہو گیا ہے۔ انسان اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے انہیں جواز فراہم کرتا ہے۔کرسمس ایک ایسا بابرکت موقع ہے جو ہمیں اپنی زندگی کا سنجیدگی سے جائزہ لینے اور ان راستوں سے یوٹرن لینے کی دعوت دیتا ہے جو ہماری ذاتی، خاندانی اور روحانی زندگی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔
انسانی خواہش کی تسکین سے الٰہی مقصد کی تکمیل
کرسمس ہمیں صرف اپنی انسانی خواہشات کی تکمیل تک محدود نہیں کرتا بلکہ اپنی زندگی کے الٰہی مقصد کو پہچاننے اور پورا کرنے کی یاد دہانی کراتا ہے۔ یہ مقصد دوسرے انسانوں کی زندگی میں بہتری، مدد اور تعاون کے ذریعے ایک بہتر انسان اور ذمے دار شہری بننے کی صورت میں پورا ہوتا ہے۔ جب ہم اپنی زندگی کے مقصد کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں تو ہم نہ صرف ہم خوش حال ہوتے ہیں بلکہ ہمارے ارگرد موجود لوگ اور ہمارا خالق بھی ہم سے راضی ہوتا ہے۔ یہ انسان کو عظیم تر مقصد کی تلاش اور تکمیل کے لیے قوت دیتا ہے۔
خودغرضی سے الٰہی مرضی تک
کرسمس انسانی زندگی کا ایک بنیادی اور ابدی پیغام دیتا ہے کہ خودغرضی ہمیشہ انسان کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے اور وہ نہ صرف خود کو بلکہ دوسروں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ انسان کی بقاء خود غرضی میں نہیں بلکہ الٰہی مرضی کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے۔ حقیقی نجات اور کام یابی اسی راستے میں پوشیدہ ہے۔ آج کا انسان صرف اپنی مرضی اور خود غرضی کی وجہ سے تنہا، کم زور اور پریشان ہے۔ یہ خود غرضی سے الہٰی مرضی کی تکمیل کا امتحان ہے۔
سادگی میں ترقی کی تلاش
آج کا انسان جہاں بے شمار مسائل اور دباؤ کا شکار ہے، وہیں وہ بلاوجہ موازنہ، حد سے زیادہ خودنمائی اور نمود و نمائش کی وجہ سے بھی بے سکونی کا شکار ہے۔ کرسمس ہمیں سادگی میں ترقی کی تلاش کا موقع دیتا ہے۔ یہ ہمیں انسانوں کی نظر سے نہیں بلکہ رحمان کی نظر سے دُنیا کو دیکھنے کی جستجو عطا کرتا ہے۔ اکثر لوگ ترقی کی دوڑ میں سادگی کو چھوڑ دیتے ہیں، جو دراصل زندگی کے الٰہی سکون اور حقیقی راحت سے کنارہ کشی کے مترادف ہے۔
دِل کی روشنی میں خُدا کی محبت
کرسمس ہمیں دُنیا کی مصنوعی روشنیوں میں نہیں بلکہ اپنے دِل کے چراغ میں خُدا کی محبت تلاش کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ یہ ہمیں اپنے پڑوسی کی خدمت میں خُدا کی خوشنودی ڈھونڈنے اور نفسانی حکمت کے بجائے الٰہی روشنی کی رہنمائی میں زندگی بسر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ کرسمس ،خوشیاں ، چیزیں اور تحائف لینا نہیں بلکہ دینا سکھاتا ہے؛ اپنی اَنا کو کھونا اور زندگی کا حقیقی مقصد پانا ہے۔ یہ ظاہری تیاری، نمود و نمائش اور رسموں سے بڑھ کر باطنی بیداری اور روحانی تیاری کا موقع ہے۔
کرسمس ہمیں انسان کو انسان کی نظر سے نہیں بلکہ ایمان کی آنکھ سے دیکھنے کا درس دیتا ہے۔ یہ ہمیں رنگ، ذات، مذہب، نسل، عہدے اور پس منظر سے بالاتر ہوکر انسانیت، محبت اور خلوص کی بنیاد پر ایک دوسرے کو اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔آئیے، اس کرسمس پر اپنے تعصبات، محدود نظریات اور سنی سنائی روایات سے آگے بڑھ کر ایک دوسرے کو دِل سے گلے لگائیں اور محبت و خلوص کے ساتھ کرسمس کی مبارک باد پیش کریں۔
پاکستانی مسیحی اس تہوار کو سب سے بڑی عید کے طور پر مناتے ہیں، اسی لیے پنجابی اور اُردو پس منظر کے حامل مسیحی اس دن کو ’’بڑا دن‘‘ کہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے بہت سے مسیحی بھائی بہن معاشی، سماجی اور دیگر نامساعد حالات کی وجہ سے اس تہوار کو اس کی اصل شان و شوکت اور خوشیوں کے ساتھ منانے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق ان کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لیے اپنے حصے کی ایک چھوٹی سی شمع ضرور روشن کریں۔ اگر ہم اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے آس پاس، پڑوس یا جاننے والے مسیحیوں کو گلے لگا کر ’’یپی کرسمس‘‘ یا ’’جشن ِ ولادت المسیح‘‘ ضرور کہیں۔ یقین مانیں، یہ ’’بڑا دن‘‘ ان کے لیے اور بھی بڑا ہوجائے گا۔ میری جانب سے آپ سب کو کرسمس کی ڈھیروں خوشیاں مبارک ہوں۔