میرے اپنے بچے خضدار شہرکے اسکول میں پڑھتے تھے مگر ہمارے پاس ان کے اسکول کی فیس دینے کے لیے پیسے نہیں تھے، میں نے اپنے بچوں کو بھی اس جھونپڑی میں پڑھانا شروع کر دیا۔ ہمارے گاؤں میں بیشتر افراد انتہائی غریب ہیں، والدین کے پاس بچوں کو گرم کپڑے ،موزے پہنانے کے لیے رقم نہیں ہوتی ،اس لیے مجھے اپنی آمدنی میں سے بہت سا حصہ بچوں کو کتابیں، کاپیاں، قلم اور کپڑے فراہم کرنے کے لیے خرچ کرنے پڑے۔ میری جھونپڑی میں پہلے صرف چند بچے پڑھنے آتے تھے، پھر یہ تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ،سخت سردی میں جب بارش ہوتی ہے،بہت زیادہ سردی پڑتی ہے یا سخت گرمی کا موسم ہوتا ہے تو میرے اور بچوں کے لیے تعلیم جاری کرنا خاصامشکل ہوجاتا ہے، مگر میرے اور بچوں کے عزائم بلند ہیں، یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسکول محکمہ تعلیم سے رجسٹرڈ نہیں ہے۔
اس کی رجسٹریشن ہونا ضروری ہے، یہ اسکول بغیر کسی معاوضے کے چلتا ہے ۔یہ کہانی ایک استانی سلمہ کی ہے ۔وہ کہتی ہیں کہ کچھ مخیر حضرات اگر ان کے اسکول کو بنوا دیں تو بچوں کو موسم کی سختیوں سے بچایا جا سکتا ہے، بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار سے سات کلومیٹر دور ایک گاؤں سنی تیغ میں ایک جرأت مند استانی سلمہ کی یہ داستان ہے ،یہ خاتون گزشتہ3 سال سے بغیر کسی معاوضے کے تعلیم کا مقدس فریضہ انجام دے رہی ہے ،یہ رپورٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس کی کوئٹہ سے شایع ہونے والے موقر اخبار آزادی کے خضدارکے رپورٹر نے تصدیق کی ہے، اس رپورٹر نے لکھا ہے کہ خضدارکا علاقہ شہر سے7 کلومیٹر دور ہے اور اس علاقے میں دور ،دور تک کوئی اسکول نہیں ہے، اس اسکول میں دور دراز سے بچے آتے ہیں، جن میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے، سلمہ کہتی ہیں کہ ان کا شوہر مزدور ہے اور وہ کشیدہ کاری سے ہونے والی آمدنی سے بچوں کو ساری سہولتیں فراہم کر رہی، یہ جھونپڑی پہاڑوں کے درمیان ایک زیر تعمیر ڈیم کے قریب ہے جو قومی شاہرا ہ سے جوایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
اس رپورٹر نے لکھا ہے کہ اس اسکول کی حالت انتہائی خستہ ہے،نہ چھت ہے نہ بیٹھنے کے لیے چٹائیاںہیں اورنہ دوسرا فرنیچر ہے، بچے کچی زمین پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں اور جگہ کم ہونے کی وجہ سے کھلے آسمان تلے اپنی کلاس اٹینڈ کرتے ہیں،سردی اور سخت موسم میں اسکول کا یہ ڈھانچہ بچوں کے لیے مشکل کر دیتا ہے کیونکہ ایک ہی کمرہ ہے تو تمام کلاسوں کے بچے بغیر کسی فرق کے ایک ساتھ اپنی استانی سلمہ سے تعلیم حاصل کرتے، اس رپورٹر نے اسکول کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ ا سکول میں وائٹ بورڈ بھی نہیں ہے ،بنیادی مضامین اردو انگریزی کے حرف تہجی میں ایک مستقل بینر پہ لکھ دیے گئے ہیں، یہ الفاظ مٹائے نہیں جاسکتے ہیں، معصوم بچے اس بینر کو وائٹ بورڈ سمجھ کر پڑھتے ہیں، اسکول میں بعض بچے اعتماد کے ساتھ انگریزی بھی بولنے لگے ہیں اور ریاضی کے فارمولے کو بھی بیان کرنے لگے ہیں۔
خضدارشہر کی 2023 کی مردم شماری کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ خضدار کی کل آبادی 218112 ہے، جس میں 36 اشاریہ 5 فیصد آبادی شہری علاقوں میں اور63 اشاریہ5 فیصد آبادی دیہی علاقے پر محیط ہے، خضدارشہر میں خواندگی کا تناسب 38.6 فیصد ہے، خواتین میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے، خضدار میں 70 فیصد آبادی غربت خط کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک سرکاری سروے میں یہ بتایا گیا تھا، بلوچستان کے 16 اضلاع پاکستان میں سب سے زیادہ پسماندہ اضلاع میں شمار ہوتے ہیں ۔خضدارشہر ،ان میں سر فہرست ہے، خضداراور اطراف کے علاقوں میں مختلف قبائل آباد ہیں جس میں بزنجو، مینگل ،زہری، جاموٹ، بنگل زئی وغیرہ قابل ذکرہیں،گزشتہ 78 سالوں کے دوران خضدار سے تعلق رکھنے والے ایک گورنر اور دو وزراء اعلیٰ اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔ اس علاقے میں پانی کی شدید قلت ہے ۔
آبادی کا ایک حصہ مال مویشی اور ایک حصہ زراعت سے وابستہ ہے مگرکچھ لوگ کانکنی سے بھی وابستہ ہیں، کچھ سرکاری ملازمتوں سے منسلک ہیں، خضدارشہر میں انجینئرنگ یونیورسٹی،میڈیکل کالج اور کچھ اچھے اسکول قائم ہیں، بلوچستان میں اس سال کے بجٹ پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ بجٹ میں اسکولوں کے لیے 100 بلین روپے اور 29 بلین روپے اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص کیے گئے تھے ۔ حکومت بلوچستان بارہا یہ دعویٰ کرتی ہے کہ صوبے میں اسکولوں کا جال بچھایا جا رہا ہے، مگر بلوچستان میں ایجوکیشن مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم موجود ہی نہیں ہے۔ اس لیے اس بات کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ بلوچستان میں اسکو لوںکی تعداد کتنی ہے، بلوچستان میں 34لاکھ کے قریب بچوں کے بارے میں حتمی طور پر بتایا جاتا ہے کہ بچے اسکول نہیں جاتے، ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ بلوچستان کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 18ویں ترمیم کے بعد قومی مالیاتی ایوارڈ(این ایف سی) کا نیا فارمولا جب سے نافذ ہوا ہے تو بلوچستان کی آمدنی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے لیکن یہ رقم تعلیم و صحت کے منصوبوں کے علاوہ کہیں اور خرچ ہوتی ہے۔
چین کے تعاون سے سی پیک کا ایک منصوبہ شروع کیا گیا تھا، اس منصوبے کے تحت بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کو چین کے صوبے سنکیانگ سے منسلک کر دیا گیا، سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے وزراء سی پیک کو گیم چینجر قرار دیتے تھے، ان وزراء کا ہمیشہ سے یہ بیانیہ رہا کہ اس منصوبے کے تحت صرف سڑکیں تعمیرنہیں ہوں گی بلکہ بڑے کارخانے بھی لگیں گے اور بلوچستان کی قسمت تبدیل ہو جائے گی مگر اب حالات کی تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کو سی پیک سے کچھ نہیں ملا ۔ بقول بلوچستان کے ایک دانشور کے اس منصوبے کے تحت تعمیر کردہ شاہراہوں پر بلوچ شہری صرف پنکچر لگانے کا کام کرسکیں گے یا کہیں کوئی ڈھابا بنالیں گے (مگر بلوچستان سیکیورٹی کی بدترین صورت حال میں یہ بھی ممکن نہیں رہا)۔
ترقیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ بلوچستان بیڈ گورننس اور کرپشن کا شکار ہے، بلوچستان مسلسل سیاسی بحرانوں کا شکار رہا ہے اور یہ بحران اب بھی جاری ہے، کوئٹہ کی حکومت کی پورے بلوچستان پر عملداری نہیں ہے۔ کئی علاقے نو گو ایریا ہیں۔ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے کاغذوں میں بنتے ہیں۔ گزشتہ 78 سالوں میں بلوچستان میں صرف نیشنل عوامی پارٹی،بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کی حکومتیں ہی عوام کے ووٹوں سے قائم ہوئی تھیں۔ ان حکومتوں نے بلوچستان میں تعلیم اور صحت کی سہولتوںکی فراہمی کے لیے بنیادی منصوبہ بندی کی تھی۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک کے دور میں بلوچستان کے بجٹ کا 60 فیصد حصہ تعلیم اور صحت کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ انھوں نے ہر شہری کی کی مادری زبان میں تعلیم کے حق کو تسلیم کیا تھا مگر بعد میں حکومتوں کی تبدیلی سے صورتحال خراب ہوتی چلی گئی، خضدار کی بیٹی سلمہ نے ایک جھونپڑی میں اسکول قائم کر کے ایک ایسی مثال قائم کی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بلوچستان کی خواتین اپنے حقوق کے لیے ہر محاذ پر جدوجہد کر سکتی ہیں۔ اصولی طور پر تو بلوچستان کی گورنمنٹ کو سلمہ کے اسکول کو ایک جدید اسکول میں تبدیل کرنا چاہیے اور سلمہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجنا چاہیے تاکہ وہ واپس آ کراس علاقے میں تعلیم کے لیے کام کر سکیں بہرحال اس وقت سلمہ کو صرف سلام پیش کیا جاسکتا ہے۔