واقعہ آسام کے ضلع کاربی آنگ لانگ میں پیش آیا، جہاں قبائلی زمینوں پر سرکاری سرپرستی میں ہونے والی تجاوزات کے خلاف مقامی آبادی سڑکوں پر نکل آئی۔
عینی شاہدین اور بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین نے حکومت کی زمین پالیسیوں کے خلاف شدید احتجاج کیا اور الزام عائد کیا کہ ان کی آبائی اور قبائلی زمینیں زبردستی چھینی جا رہی ہیں۔
مشتعل مظاہرین نے متعدد دکانوں کو آگ لگا دی جبکہ ایک بی جے پی رہنما کے گھر کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔ اس دوران پولیس پر شدید پتھراؤ کیا گیا۔
بھارتی پولیس نے احتجاج کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا۔
پولیس اور شہریوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں دو افراد جان سے گئے، جبکہ 40 پولیس اہلکاروں سمیت مجموعی طور پر 50 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔
صورتحال قابو سے باہر ہونے پر ضلعی انتظامیہ نے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا جبکہ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بھی معطل کر دی گئیں تاکہ اطلاعات کی ترسیل روکی جا سکے۔
آسام کے وزیر اعلیٰ نے حالات پر قابو پانے کے لیے اضافی پولیس اور نیم فوجی نفری تعینات کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی صدیوں پرانی قبائلی زمینوں کے تحفظ کے لیے سراپا احتجاج ہیں، مگر مودی حکومت اور ریاستی انتظامیہ عوامی مطالبات سننے کے بجائے طاقت، کرفیو اور انٹرنیٹ بندش کے ذریعے آواز دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔