متحدہ عرب امارات کا یمن میں ملٹری آپریشن بند اور اپنے فوجی واپس بلانے کا اعلان

سعودی عرب کے سخت ردعمل کے بعد متحدہ عرب امارات نے یمن میں اپنی باقی ماندہ انسدادِ دہشت گردی کارروائیاں ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق متحدہ عرب امارات کی وزارتِ دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی یونٹس کی واپسی رضاکارانہ بنیادوں پر اور شراکت داروں کے ساتھ مکمل رابطے اور تعاون سے عمل میں لائی جائے گی۔

وزارت دفاع کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ وہاں موجود اہلکاروں کی حفاظت اور سلامتی کو ممکن بنانا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ حالیہ پیش رفت اور سیکیورٹی خدشات کے تناظر میں ایک جامع جائزے کے بعد کیا گیا۔

اماراتی وزارت دفاع کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یمن میں متحدہ عرب امارات کی براہِ راست فوجی موجودگی بھی پہلے ہی 2019 میں ختم ہوچکی تھی۔

اماراتی وزارت دفاع کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ اقدام خطے میں امن و استحکام کے لیے یو اے ای کے دیرینہ عزم کے مطابق ہے۔

وزارت دفاع کے بیان میں واضح کیا گیا کہ یو اے ای 2015 سے عرب اتحاد کے تحت یمن میں قانونی حکومت کی حمایت کرتا رہا ہے۔

 بیان میں کہا گیا ہے کہ 2019 میں طے شدہ اہداف مکمل ہونے کے بعد اپنی فوجی موجودگی ختم کرنے کے بعد سے صرف محدود اور خصوصی ٹیمیں انسدادِ دہشت گردی کے لیے موجود تھیں، جو اب واپس بلائی جا رہی ہیں۔

متحدہ عرب امارات کی وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یو اے ای کے بیٹوں نے یمن میں امن اور استحکام کے مقاصد کے حصول کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔

خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب سعودی عرب نے یمن کی بندرگاہ پر مبینہ اسلحہ بردار گاڑیوں کو نشانہ بنایا۔

سعودی عرب نے موقف اختیار کیا کہ متحدہ عرب امارات یمن کے جنوبی علاقے میں علیحدگی پسندوں کو اسلحہ اور مالی تعاون فراہم کر رہے ہے۔

تاہم متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس بیان کو مایوس کن قرار دیا تھا۔

اس سے قبل یمن کی بین الااقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے حکمراں نے بھی متحدہ عرب امارات کو 24 گھنٹوں کے اندر یمن چھوڑنے کا کہا تھا۔

سعودیہ اور امارات کے یمن پر اختلافات: مختصر پس منظر

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات 2015 میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف ایک ہی عرب اتحاد کا حصہ بنے تھے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ دونوں ممالک کی ترجیحات مختلف ہوتی چلی گئیں۔

سعودی عرب یمن کی وحدت، مرکزی حکومت اور سیاسی حل پر زور دیتا رہا ہے جب کہ یو اے ای نے جنوبی یمن میں سیکیورٹی، بندرگاہوں اور انسدادِ دہشت گردی پر توجہ مرکوز رکھی اور سدرن ٹرانزیشنل کونسل سے قربت اختیار کی۔

2019 میں یو اے ای کی فوجی واپسی کے بعد یہ اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے جبکہ حالیہ مکلا واقعے اور بیانات نے دونوں اتحادیوں کے درمیان تناؤ کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔

 

Similar Posts