مسلمان مخالف وقف بل کے باعث پورا بھارت ہنگاموں کی لپیٹ میں، 3 ہلاکتیں 138 گرفتار

0 minutes, 0 seconds Read

مغربی بنگال کے ضلع مرشدآباد میں نئے وقف ایکٹ کے خلاف جمعے کو نماز کے بعد شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں اب تک تین افراد ہلاک اور 138 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

ہلاک ہونے والوں میں ایک باپ بیٹا، ہرگوبند داس اور چندن داس شامل ہیں جنہیں ہفتے کے روز مشتعل ہجوم نے بے دردی سے قتل کر دیا، جبکہ ایک 17 سالہ نوجوان احتجاج کے دوران پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہوا۔

ہفتے اور اتوار کو مرشدآباد کے مختلف علاقوں میں تباہی کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ نے حساس علاقوں میں نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کا حکم دیا۔ سُتی اور شمشیر گنج جیسے علاقوں میں رات بھر پیرا ملٹری اہلکاروں نے گشت کیا اور متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کی۔

مغربی بنگال میں وقف ایکٹ کیخلاف احتجاج، پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں، گاڑیاں نذر آتش

ذرائع کے مطابق پولیس مظاہرین کے سامنے بے بس نظر آئی۔ مقامی افراد کا کہنا تھا کہ تین گھنٹوں تک جاری رہنے والی تباہی کے دوران پولیس کہیں نظر نہیں آئی۔ دھولیان میں ایک مقامی دکاندار نے بتایا کہ اُن کی دکان کو نذر آتش کیا گیا جبکہ اُن کی بیوی اور بچے شدید خوف میں مبتلا رہے۔

مظاہرین پراحتجاج کے دوران شدید لاٹھی جارج اور شیلنگ کی گئی۔ مظاہرین نے سڑکیں بلاک کی گئیں اور نیشنل ہائی ویز بند کردیے، مزید یہ کہ بی جے پی حکومت کو پورا بھارت بند کرنے کی دھمکی بھی دے دی۔

بھارتی پولیس کی جانب سے ممنوعہ احکامات جاری کرتے ہوئے انٹرنیٹ معطل کر دیا گیا لیکن حالات قابو میں نہ آسکے، اپوزیشن جماعتوں، مسلم تنظیموں اورانسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے ملک بھرمیں احتجاج کی کال بھی دی گئی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ہنگاموں کا سلسلہ وسیع ہوتا گیا اور کولکتہ، رانچی، احمد آباد، بہاراورمنی پور سمیت متعدد شہروں میں بھی مظاہرے اور ھنگامے پھوٹ پڑے۔ عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پرنکل آئے اور ’وقف بل واپس لو‘ کے نعرے لگائے۔ مودی کو بھی مسلمانوں کی اربوں کی زمین ہڑپنے پر عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔

بی جے پی کے رہنما اور مغربی بنگال اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شُوبھندو ادھیکاری نے کہا کہ ریاست میں ہندو محفوظ نہیں ہیں اور ریاستی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کم از کم 35 ہندوؤں کی دکانیں جلائی گئیں۔ اُن کے مطابق وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کی ’من مانی اور اقلیتوں کو خوش کرنے کی سیاست‘ اس خونریزی کی بنیادی وجہ ہے۔

وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے حالات پر قابو پانے کی اپیل کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ’کچھ سیاسی جماعتیں مذہب کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔‘

مغربی بنگال میں یونیورسٹی کے قریب دیوار پرآزاد کشمیر اور آزاد فلسطین کے نعرے درج

اس وقت نہ صرف مرشدآباد بلکہ شمالی 24 پرگنہ اور ہوڑہ کے چمپدانی جیسے اضلاع میں بھی حالات کشیدہ ہیں۔ عدالت عالیہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ یہ پرتشدد مظاہرے کئی اضلاع میں پھیل چکے ہیں۔ ریاستی پولیس کے اعلیٰ افسر راجیو کمار نے شمشیر گنج کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سیکیورٹی اہلکاروں کے ہمراہ رات گئے فلیگ مارچ کیا۔

پولیس حکام کے مطابق اب تک 18 پولیس اہلکار بھی ان مظاہروں میں زخمی ہو چکے ہیں۔

Similar Posts