مولانا فضل الرحمان کے بغیر کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی، محمد زبیر

0 minutes, 0 seconds Read

سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے بغیر کوئی تحریک کامیاب ہو بھی نہیں سکتی یہ بات بھی سب کو معلوم ہے۔ سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمان کو استعمال کر کے اسٹیبلشمنٹ سے اپنے معاملات کو سیدھا کیا۔

آج نیوز کے پروگرام روبرو میں میزبان شوکت پراچہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ موجودہ حال سب کے سامنے ہیں اور سب اس کی تعبیر تو اپنی اپنی طرف سے کرتے ہیں، مولانا فضل الرحمان کے بیانات ایک سال سے دیکھیں وہ اس حکومت کو منتخب حکومت نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ہونا چاہیے کیوں کہ جو موجودہ ڈیڈ لاک ہے پاکستان پھنسا ہوا ہے، اس کا کچھ نہ کچھ سد باب ہونا چاہیے۔

محمد زبیر نے کہا کہ جب تحریک کی بات آتی ہے تو جے یو آئی ف کا پی ٹی آئی کے ساتھ مفادات مشترکہ ہیں لیکن اس میں اختلافات ہیں۔ پی ٹی آئی نے زیادہ تر سولوفلائٹ کرنے کی کوشش کی، جوائنٹ اپوزیشن کا حصہ نہیں بنایا، پارلیمینٹ کے اندراور نہ باہر۔ اور پھر بہت دیر بعد خیال آیا کہ سب کو ساتھ چلنا چاہیے۔

سابق گورنر سندھ نے کہا کہ مولانا صاحب کو اپنی بات کلیئر کٹ بتانی چاہیے کہ ہم اس حق میں ہیں کہ تحریک چلائیں یا نہ چلائیں۔ مزید چھ ماہ یا ایک سال اس طرح سے نہیں گزار سکتے، کیوں کہ کلیئر کٹ پوزیشن ہونی چاہیے کہ آپ حکومت کو گرانے کے لیے تحریک چلانا چاہتے ہیں یا نہیں۔

محمد زبیر نے کہا کہ جے یو آئی تحریک چلانا چاہتی تو اس پر اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ ان کے بغیر کوئی تحریک کامیاب ہو بھی نہیں سکتی یہ بات بھی سب کو معلوم ہے۔ جوائنٹ اپوزیشن میں یہ اس حد تک نہیں جائیں گے کہ احتجاجی تحریک کا حصہ بنیں۔

سابق گونر سندھ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ان کا نرم گوشہ ہو سکتا ہے اور مشکل وقت سے گزر رہی ہے، اگر یہ تحریک چلائیں تو پھر جے یو آئی ایف کے حصے میں کیا آئے گا؟ کیوں کہ جہاں ان کو اسپورٹ بیس ہے، وہاں تحریک انصاف کا بنیادی رول ہے 2013 سے اب تک۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ تحریک کا حصہ بنیں اور اس کا سارا فائدہ پی ٹی آئی اٹھائے۔

سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر نے کہا کہ جے یو آئی کیا فیصلہ کرتی ہے یہ تو وہ بہتر جانتے ہیں، ہم تو دورسے بیٹھے رائے ہی دے سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مولانا صاحب ماضی میں بھی پی ڈی ایم کا حصہ رہے اور پی ڈی ایم میں رہ کر تحریک میں بڑا فعال کردار ادا کیا۔ سب نے اس کا استعمال اسٹیبلشمنٹ سے معاملات ٹھیک کرنے کے لیے کیا۔

انھوں نے کہا کہ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اپوزیشن میں اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے ایک تحریک چلانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو میرے وزن کو استعمال کرکے دیگر جماعتیں کہیں اپنے معاملات درست کرنے میں نہ لگ جائیں۔

سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر نے کہا کہ اسی طرح نہ ہو کہ جب مولانا صاحب لانگ مارچ لے کر کراچی سے نکلے اورجب لاہورپہنچے تو مسلم لیگ ن کی جانب سے ان کا استقبال کیا گیا، ن لیگ نے مولانا کو استعمال کر کے اسٹیبلشمنٹ سے اپنے معاملات کو سیدھا کیا، اس کے نتجیے میں میاں صاحب لندن چلے گئے اور وہ ساری ڈیل ہمارے سامنے آ گئی۔

انھوں نے گفتگو میں یہ بھی کہا کہ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے، جس میں مختلف نظریات رکھنے والے لوگ ہیں، ایک مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں، ماضی میں ایم آر ڈی کی تحریک بھی رہی۔ اے پی ڈی ایم بھی رہی، نوابزادہ نصراللہ مرحوم کا اپوزیشن کو اکٹھا کرنے میں کردار یہ سب پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے، کئی ایسے پوائنٹس ہیں جس پر مشترکہ چیزیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔

سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کلیئر ہیں کہ نیا الیکشن کال کیا جائے اور نئے الیکشن کے حوالے سے محمد زبیرصاحب نے جو بات کی ان کو بھی ایڈریس کیا جا سکتا ہے، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی جانب سے اسپیس دی جا سکتی ہے اور دیگر الائنس کے پارٹنرز کو لیکن یہ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔

پی ٹی آئی میں ملاقاتوں کے حوالے سے تنازع کے سوال پر انھوں نے کہا کہ یہ افسوس ناک تصویریں ہیں جو ہم ٹی وی پر دیکھتے ہیں جو عمران خان کی بہنوں، ان کے لوگوں کو ہراساں کیے جانے کا، فٹ پاتھوں میں بیٹھے ہونے کا یہ تو کسی بھی قیدی کا جیل مینوئل کے تحت حق ہے کہ وہ اپنے خاندان سے اور اپنے رشتے داروں سے ملاقات کر سکے۔

انھوں نے کہا کہ جب ہم اپوزیشن میں تھے میں بلاول صاحب کے ساتھ میاں نواز شریف کے ساتھ جو کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے انھیں ملنے کے لیے گئے تھے اور جتنے اپوزیشن کے رہنما جیلوں میں تھے اس وقت ان پر ملاقاتوں کی کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی آر آج جو حکومت کر رہی ہے، خود ان تکالیف اور مرحلوں سے گزری ہے۔

سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر نے اپنی گفتگو میں مزید کہا اس کے باوجود ایسا کرنا اس میں زیادہ ذمے داری پنجاب حکومت پر عائد ہوتی ہے، کیوں کہ جو جیل کا محکمہ ہے وہ صوبائی حکومت کے نیچے آتا ہے تو مریم نواز صاحبہ نے خود یہ تکالیف دیکھی ہیں اور یہ تکالیف اوروں کو دینا غیر مناسب عمل ہے، ملاقات کی اجازت بھی ہونی چاہیے، جب ٹی وی پر وژیول نہیں آئیں گے تو ہم اورآپ کچھ اور گفتگو کر رہے ہوں گے۔

Similar Posts