اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ وہ قیدیوں کی واپسی کے لیے بھی جنگ کا خاتمہ نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس نے قیدیوں کے تبادلے کی پیشکش کو صرف اس لیے رد کر دیا کیونکہ وہ مکمل جنگ بندی چاہتی ہے۔ نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ حماس کو تسلیم کرنا اسرائیل کی جنگی کامیابیوں کو ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔
دوسری جانب نیتن یاہو کی اس پالیسی کے خلاف اسرائیل بھر میں شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ٹرمپ کی تنبیہ کے باوجود اسرائیل کے ایرانی جوہری پروگرام پر حملے کا خدشہ
تل ابیب سمیت کئی شہروں میں لاکھوں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور نیتن یاہو کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ مظاہرین نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا، جبکہ کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں، جن میں متعدد افراد زخمی ہو گئے۔
غزہ میں شہید خاتون صحافی کی آخری دلیرانہ خواہش نے لوگوں کو آبدیدہ کردیا
ادھر غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے عوامی دباؤ میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق اب تک 1 لاکھ 38 ہزار اسرائیلی شہری غزہ جنگ بندی کی پیٹیشن پر دستخط کر چکے ہیں، جن میں 1 لاکھ 27 ہزار 255 عام شہری اور 11 ہزار 179 فوجی اہلکار شامل ہیں۔
اس پیشرفت کو اسرائیل کے اندر بڑھتی ہوئی بے چینی اور عوامی اختلاف رائے کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔