پاک بھارت کشیدگی: ایشیاء کپ خطرے میں پڑ گیا

0 minutes, 0 seconds Read

پے در پے ناکامیوں کے بعد بھارت نے ایک بار پھر کھیل کے میدان کو سیاست سے آلودہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو پیش آنے والے حملے کو جواز بنا کر مودی حکومت نے پاکستان کے خلاف نئی سفارتی اور اسپورٹس محاذ پر محاذ آرائی شروع کر دی ہے۔

بھارتی اخبار ”ٹائمز آف انڈیا“ کے مطابق، بھارت ایشیا کپ کو ملتوی کرنے یا مکمل طور پر منسوخ کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یہ ٹورنامنٹ ستمبر میں بنگلہ دیش سیریز کے فوراً بعد کسی غیر جانبدار مقام پر ہونا تھا، لیکن بھارتی حکام نے موجودہ حالات کو جواز بنا کر اسے روکنے کی راہ ہموار کرنا شروع کر دی ہے۔

بھارت نے لاہور قلندرز کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک رسائی بند کردی

واضح رہے کہ بھارت ایشیا کپ کا میزبان ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان کو سری لنکا یا متحدہ عرب امارات میں میچز کھیلنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ وہی ”ہائیبرڈ ماڈل“ ہے جسے گزشتہ برس پاکستان کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا، لیکن تب بھارت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ اب جب معاملہ پاکستان کے حق میں جا رہا ہے، بھارت اسی ماڈل کا سہارا لینے پر مجبور دکھائی دے رہا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت نے کھیل کے میدان میں پاکستان کے خلاف انتقامی رویہ اپنایا ہو۔ اس سے قبل بھی مودی حکومت نے کھیلوں کو سفارتی دباؤ کے آلہ کے طور پر استعمال کیا ہے، جس کی مثال 2023 کا ایشیا کپ اور 2019 ورلڈ کپ میں دیکھنے کو ملی۔

سابق بھارتی کپتان کا پاکستان کے ساتھ کرکٹ کے 100 فیصد خاتمے کا مطالبہ

دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا دورہ بھی اب بھارتی منصوبہ بندی میں شامل ہے، جہاں اطلاعات ہیں کہ بھارت بنگلہ دیش میں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز سے بھی راہ فرار اختیار کر سکتا ہے۔ اس کی ممکنہ وجہ بنگلہ دیش کے ریٹائرڈ جنرل فضل الرحمٰن کا بیان ہے، جنہوں نے بھارت کے شمال مشرقی علاقوں کے حوالے سے حساس ریمارکس دیے۔

پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کھیل کو ہمیشہ نفرت کی سیاست سے آلودہ کرتا ہے، اور پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر ایک بار پھر یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کو کھیل کے میدان سے بھی دیوار سے لگا دیا جائے۔

سندھ پولیس کے کمانڈو باکسر شہیر آفریدی بھارتی باکسر پر جھپٹنے کو تیار

تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ اور ایشین کرکٹ کونسل کے دیگر ارکان بھارت کے اس دباؤ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک بار پھر ثابت ہو رہا ہے کہ مودی سرکار کھیل کے عالمی اصولوں کو روند کر اپنی نفرت کی سیاست کو فروغ دے رہی ہے — لیکن سوال یہ ہے کہ کیا باقی دنیا اس تنگ نظری کو تسلیم کرے گی؟

Similar Posts