تیسری عالمی جنگ: منصوبہ بندی جاری, اسلحے کی جانچ، ایٹمی پروگرام، امریکی زوال کا وقت؟

0 minutes, 0 seconds Read

پاک بھارت تنازع میں پاکستان کی طرف سے جے 10 سی اور جے ایف 17 تھنڈر لڑاکا طیارے، چینی میزائل پی ایل 15، میزائل فتح ون اور ٹو اور ڈرونز استعمال کیے گئے، پاکستان میں کئی طرح کے حفاظتی نظام موجود ہیں۔ بھارت نے رافیل، مگ 29 اور سخوئی30، میزائل براہموس، اسرائیل کے فراہم کردہ ڈرونز استعمال کیے، بھارت کا حفاظتی نظام سہ پرتی ہے، مزید تفصیلات بھی وقت کے ساتھ سامنے آتی جائیں گی۔

اب آتے ہیں ان چند سوالات کی طرف کہ جن کے جوابات کی کچھ طاقتوں کو بڑی شدو مد سے تلاش ہے، دونوں ملک کتنے پانی میں ہیں اور ان کے پاس موجود میزائل، طیارے اور گولا بارود کتنی ہلاکت خیزی کا حامل ہے؟ سامان میں کیا کیا خامیاں ہیں؟ انھیں استعمال کرنے والے کتنے باصلاحیت ہیں؟ اور کیا پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اپنے ملک اور ایٹمی پروگرام کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟

چند روزہ لڑائی میں پاکستان نے بھارت کے تین رافیل، ایک مگ اور ایک سخوئی طیارہ مار گرایا، طیاروں کی تباہی کے لیے پی ایل 15 اور دفاعی نظام استعمال کیا۔ جے ایف 17 تھنڈر سے میزائل فائر کرکے بھارت کے ایس 400دفاعی نظام کو تباہ و برباد کردیا جس کی مالیت ڈیڑھ ارب ڈالر کے قریب ہے، ایس 400 پہلا دفاعی نظام تھا، بھارت کا دوسرا نظام برق ہے جو زمین سے فضا میں مار کرنے والے ہتھیاروں سے لیس ہے، تیسرا اور آخری نظام آکاش ہے، جسے مقامی سطح پر تیار کیا گیا ہے۔ پاکستان کے مطابق بھارت کے تینوں نظام ڈبا ثابت ہوئے اور وہ پاکستان کا کوئی میزائل بھی نہیں روک پائے اور پاکستانی فتح میزائلوں نے بھارت میں تباہی مچا دی ہے۔

فتح میزائل پاکستان نے مقامی طور پر تیار کیا ہے، جبکہ پاکستان نے اپنی فضائی حدود کا تحفظ چینی ساختہ اینٹی ایئر کرافٹ سسٹم سے کیا۔ بعض بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ فتح میزائل ایران نے پاکستان کو فراہم کیے ہیں، پاکستان کا دفاعی نظام بھارت کے براہموس میزائلوں اور ڈرونز کو روک نہ سکا، میزائلوں نے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ اسی طرح ڈرونز بھی اپنے مشن میں کامیاب رہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے دفاعی نظام کی ناکامی کا دعویٰ کیا ہے، پاک فوج کا کہنا ہے کہ پاکستان کا دفاعی نظام مضبوط تر ہے اور پاکستان کی فضائی حدود میں آنے والی ہر شے چاہے معمولی سا ڈرون ہو یا میزائل اس کی نظر میں آئے بغیر ملکی حدود میں داخل نہیں ہوا۔

پاکستان نے بھارت کے خلاف بیک وقت کئی طریقہ ہائے جنگ استعمال کیے، روایتی و جدید ہتھیاروں سے بھارت کو نشانہ بنایا، منجمد کرنے والے آلات کی کارکردگی مثالی رہی، چند ہی گھنٹے گزرے ہوں گے کہ بھارت کا فوجی اور دفاعی ڈھانچا زمین بوس ہوگیا، ریڈار کا نظام بیٹھ چکا تھا، پاکستان نے بھارت کے بجلی کے نظام پر سائبر حملہ کیا اور بھارت کے 70 فیصد علاقے کو بجلی سے محروم کردیا، متعدد ویب سائٹس کو ہیک کرلیا، پاکستان کے سائبر اٹیک کو ڈیجیٹل دنیا مین سب سے بڑا سائبر حملہ قرار دیا گیا ہے۔

بھارت کوئی چھوٹا ملک نہیں ہے، وہ کسی افراتفری کا شکار نہیں ہوا ہوگا لیکن اس کے لیے اور پس منظر میں موجود قوت یا قوتوں کے لیے یہ بات صدمے کا باعث رہی ہوگی کہ پاکستان آئی ٹی میں مہارت کا حامل ہے اور اس کے ایٹمی پروگرام تک رسائی کسی روایتی طریقے سے ممکن نہیں ہوپائے گی۔

دونوں ملکوں کی جنگی تیاریوں پر نظر ڈالیں تو اس وقت بھارت دنیا کا دوسرا اور پاکستان پانچواں بڑا ملک ہے جو دوسرے ملکوں سے بھاری تعداد میں حربی سامان خریدتے ہیں، اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق پاکستان 81 فیصد سامان چین سے، نیدرلینڈ سے 10، ترکیے سے 6 اور دیگر ملکوں سے9 فیصد سامان حرب خریدتا ہے۔ دوسری طرف بھارت ہے جو روس سے 36، فرانس سے 33، اسرائیل سے 18 اور دیگر سے 13 فیصد سامان خریدتا ہے۔ یقینی طور پر کچھ نہ کچھ سامان خود بھی تیار کرتے ہی ہوں گے۔

اب لڑائی میں استعمال ہونے والے سامان کا جائزہ لیتے ہیں، فرانس کا رافیل طیارہ جدید ترین کہلاتا ہے اور اس کی تباہی فرانس کے لیے خاصی پریشان کن ہے، گوکہ فرنچ طیارہ ساز کمپنی نے ابھی تک طیارے یا طیاروں کی تباہی کی تصدیق نہیں کی لیکن کئی آزاد ذرائع رافیل کی تباہی کی تصدیق کر رہے ہیں۔ فرانس کے لیے یہ جاننا ازحد ضروری ہوگا کہ رافیل کیونکر تباہ ہوئے اور بھارت کو جلد ہی اسے تفصیلی رپورٹ فراہم کرنا ہوگی۔ اسی طرح پاکستانی میزائلوں اور طیاروں کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا جائے گا تاکہ ان سے بہتر میزائل اور دیگر اشیا تیار کی جائیں۔ چین کو بھی اسی طرح کی رپورٹیں پاکستان سے درکار ہوں گی تاکہ خامیوں اور خوبیوں کا بغور جائزہ لیا جائے۔

معروف دفاعی تجزیہ کار مائیکل کلارک کے الفاظ میں اگر پاکستان نے جے 10سی سے رافیل طیارے کو گرایا ہے تو بھارت کے لیے پاکستانی تکنیکی مہارت حیران کن ہوگی، اسی طرح پاکستان کا دفاعی نظام بھی زیادہ کارآمد نظر آیا۔

دونوں ملکوں کے درمیان میڈیا وار بھی لڑی گئی، بھارتی گودی میڈیا نے پروپیگنڈے میں کامیابی حاصل کی اور وہ بھارتی عوام کو جو جھوٹ باور کرانا چاہتے تھے اس میں کامیاب رہے۔ کس نے کتنا جھوٹ بولا اور کس نے سچ، یہ اہم بات نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ اثر انگیزی کس کی زیارہ رہی۔ پروپیگنڈا وار میں اخلاقی اقدار ڈھونڈنے کی کوشش بالکل بھی نہیں کرنی چاہیے، بھارتی میڈیا نے اپنے عوام کو جھوٹ کے چکر ویو میں جکڑ لیا تھا لیکن وہ پاکستانی عوام پر اپنی گرفت مضبوط نہ بنا سکا۔ موجودہ صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے امکانی طور پر نئی میڈیا پالیسی بھی ترتیب پائے گی۔

پاک بھارت لڑائی کے دوران سامان و آلات حرب کی خوبیاں اور خامیاں سامنے آچکی ہیں، بظاہر تو پاکستان اور بھارت آمنے سامنے تھے لیکن درحقیقت لڑائی کے پس منظر پر نظر ڈالیں تو صورتحال بڑی دلچسپ نظر آتی ہے۔ تنازع کے دوران چین، ترکیے اور آذربائیجان نے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا، جب کہ دوسری طرف بھارت کو صرف اسرائیل کی حمایت حاصل تھی، پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ انھیں متعدد ملکوں نے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے، بھارت بھی یہی دعویٰ کرتا ہے لیکن اہم ترین یہ کہ روس نے بھارت کی حمایت نہیں کی بلکہ دونوں ملکوں کو بات چیت سے مسائل کا حل نکالنے کا مشورہ دیا ہے۔

پاک بھارت تنازع سے جو تصویر بن رہی ہے وہ یہ کہ چینی بلاک میں پاکستان تو پہلے ہی تھا، اب ترکیے اور آذربائیجان بھی شمولیت کے لیے پر تول رہے ہیں، آذربائیجان کے آنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وسطی ایشیا کے دیگر ملک بھی اسی بلاک میں ممکنہ طور پر شامل ہوسکتے ہیں، آذربائیجان کی سرحدیں روس، ایران، ترکیے سے بھی ملتی ہیں۔ کیا آذربائیجان تنہا فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے؟ یہ سوال اپنے اندر خود جواب رکھتا ہے۔

تازہ خبر یہ ہے کہ روسی صدر پیوٹن نے یوکرین سے براہ راست مذاکرات کی تجویز پیش کردی ہے، تاہم تنازعات کی بنیادی وجوہات ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں چین، پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے نمائندوں کے درمیان ملاقات ہوئی ہے جس میں تجارت اور اقتصادی تعاون بڑھانے پر بات چیت ہوئی، سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا۔ ادھر بنگلادیش میں شیخ حسینہ واجد کی سیاسی جماعت عوامی لیگ پر پابندی لگا دی گئی ہے، بنگلادیش کی سیاست میں بھارتی مداخلت کا دروازہ ایک کے بعد ایک بند کیا جارہا ہے۔ سارے نکتوں کو ملائیں تو لگ رہا ہے کہ خطے میں کسی ایک نکتے پر اتفاق کی فضا پیدا ہورہی ہے۔ ابھی تک کی ترتیب یوں ہے، چین، پاکستان، ترکیے، آذربائیجان، بنگلادیش، افغانستان اور فی الوقت کسی حد تک روس۔

شاید اور شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کا نیا بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے سیز فائر ہونے پر پاکستان اور بھارت دونوں کی تعریف کی، تنازع کی وجہ سے لاکھوں بے گناہ افراد کے مارے جانے کا خدشہ ظاہر کیا، مسئلہ کشمیر کو ہزار سال پرانا تنازع قرار دیا اور دونوں ملکوں سے مل کر تنازع کا حل تلاش کرنے کی بات کی، امریکی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ امریکا کو جمعہ کی صبح خفیہ اطلاع ملی کہ لڑائی نہ رکی تو کچھ بہت خطرناک ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے اس نے سیز فائر کے لیے تیزی سے کردار ادا کیا۔ سب سے اہم بات امریکی صدر ٹرمپ نے دونوں ملکوں کے ساتھ تجارت میں اضافے کا بھی اعلان کردیا۔ یعنی بات جنگ سے نکل کر معیشت تک پہنچ گئی۔ ٹرمپ خطے میں امریکی بالادستی اور کسی اور قوت کو آگے بڑھنے سے روکنا چاہتے ہیں۔

عالمی سطح پر ٹیرف عائد کرنے کے چند روز بعد ہی ٹرمپ نے دعویٰ تھا کہ اب امریکا نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے، دنیا کے وہ ملک جو امریکا کو کسی خاطر میں نہ لاتے تھے، اب ہمارے سامنے سرنگوں ہوں گے اور خوشی خوشی امریکا کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں گے۔ روس، یوکرین جنگ میں امریکا کا یوکرین کے ساتھ رویہ سب کے سامنے ہے، جنگ کے لیے دی گئی امداد کو یوکرین کے معدنی وسائل پر قبضے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، وائٹ ہاؤس میں یوکرینی صدر کی تذلیل بھی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، اسے یقیناً یوکرین نہیں بھولے گا، امریکی رویے سے یورپین یونین کو بھی بڑی سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک طرف روس اور یورپین یونین کا اتحاد ناممکن نہیں تو دوسری طرف چین اور اطراف کے ملکوں میں صف بندی جاری ہے۔ معیشت کو بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے، بھارت خطے میں تنہائی کا شکار ہے، اسرائیل کی حمایت اسے بحران سے نہیں نکال پائے گی۔

میدان سیاست و کارزار میں حریف اور حلیف بدلتے رہتے ہیں، کیا امریکا کو تنہائی میں دھکیلا جارہا ہے؟ اور کیا امریکا کے زوال کا وقت آگیا ہے؟ کیا روس اور بھارت عالمی تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟ تاریخ پر نظر ڈالیں تو بڑی بڑی قوتیں اور ملک اپنی غلطیوں سے دھول چاٹتے نظر آئیں گے۔

Similar Posts