سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کیس میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا منظور کرلی جبکہ جسٹس امین الدین خان نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدالت میں کھڑے ہوکر سیاسی باتیں نہ کریں، یہ 11 رکنی آئینی بینچ ہے، سلاٹ نکال کر کیس فکس کرنا پڑتا ہے، ججز نے اور کیسز بھی سننے ہوتے ہیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔
آئینی بینچ جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس باقر نجفی پر مشتمل ہے۔
دوران سماعت سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی عدالت میں پیش ہوئے اور جواب جمع کروانے کے لیے وقت مانگ لیا اور سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ جواب کل تک جمع کروادیں گے، جس پر وکیل نے جواب دیا 2 دن کا وقت دے دیں، سوموار تک سماعت ملتوی کی جائے، آئینی بینچ پر بھی اعتراض ہے، اس پر بھی درخواست دائر کرنی ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ تیسری سماعت پر ہی کیوں آپ کو بینچ پر اعتراض کرنے کا خیال آیا؟ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پہلی سماعت پر نوٹس موصول نہیں ہوا دوسری سماعت پر جنگ چھڑ چکی تھی، آج تیسری سماعت ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا آپ کو علم تھا کیس چل رہا ہے، پہلے کیوں متفرق درخواست نہیں دائر کی؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ ہمیں باضابطہ تو نوٹس ملا ہی نہیں، ہمیں ٹی وی سے عدالتی کارروائی کا علم ہوا، ہم عدالتی کارروائی کو نظرانداز نہیں کر سکتے تھے، ویسے بھی یہ سزا موت کا کیس نہیں ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اگر نوٹس نہیں ملا تو نہ آتے، عدالت میں کھڑے ہوکر سیاسی باتیں نہ کریں، یہ 11 رکنی آئینی بینچ ہے، سلاٹ نکال کر کیس فکس کرنا پڑتا ہے، ججز نے اور کیسز سننے ہوتے ہیں۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں سب کو سنوائی کا مناسب موقع ملنا چاہیے، اگر متفرق درخواست دائر کرنے کے لیے وقت دیا جائے تو فرق نہیں پڑے گا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ آج ہی اعتراض والی درخواست ساتھ لیکر کیوں نہیں آئے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ہم کل تک کا وقت دے دیتے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آپ کے لیے تو ایک گھنٹہ بھی کافی ہے۔
فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ مجھے متفرق درخواست دائر کرنے کے لیے دو دن کا وقت دیں، پہلے میری بینچ پر اعتراض والی درخواست کو سن لیا جائے، پھر اگر درخواست خارج کرنی ہوئی تو بیشک مسکراتے ہوئے خارج کر دیجیے گا۔
ن لیگ کے وکیل حارث عظمت نے موقف اختیار کیا کہ ہم نے کیس میں اضافی گزارشات جمع کرائی ہیں، اس کیس میں نجی فریقین کی طرف سے مخدوم علی خان وکیل ہیں، اگر مناسب ہو تو مخدوم علی خان کو بطور سینئر وکیل پہلے سن لیں۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ درخواست گزار آپس میں طے کر لیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کہ سماعت 19 مئی تک ملتوی کردی۔