کیا اسرائیل تنہا ایران کے زیر زمین فردو ایٹمی پلانٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے؟ رپورٹس کے مطابق 90 میٹر گہرائی میں موجود اس تنصیب کو صرف امریکا کا خصوصی بم ہی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
تہران کے قریب واقع ایران کا فردو ایٹمی پلانٹ صہیونی ریاست کے لیے ناقابلِ تسخیر چٹان ثابت ہورہا ہے۔ 90 میٹر گہرائی میں زیرِ زمین واقع اس تنصیب کو تباہ کرنا اسرائیل کے بس کی بات نہیں، کیونکہ اس کے لیے ہزاروں ٹن وزنی بم کی ضرورت ہے، جو صرف امریکا کے پاس موجود ہے۔
ایسا بم صرف امریکا کے پاس ہے، جی بی یو فائیو سیوین پینی ٹریٹر(GBU-57A/B ”Massive Ordnance Penetrator“) یہ بم 60 میٹر تک زیرزمین اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایران پر حملے کی تیاریاں مکمل، نیویارک ٹائمز نے ٹرمپ کے منصوبے سے پردہ اٹھا دیا
تاہم یہ بھی فردو جیسے گہرے ہدف کے لیے ناکافی ہو سکتا ہے۔ برطانوی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق، اگر امریکا یہ بم اسرائیل کو دے بھی دے تو اسرائیل کے پاس ایسا کوئی بمبار طیارہ نہیں جو اس وزنی ہتھیار کو لے جا سکے۔
’میزائل نہ رکے تو آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کردیں گے‘، ٹرمپ کی ایران کو بڑی دھمکی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فردو کو تباہ کرنے کے لیے امریکا کو خود میدان میں اترنا پڑے گا، اور وہ بھی ایک حملے سے نہیں بلکہ مسلسل کئی حملوں کے ذریعے ہی یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ حالات میں اسرائیل امریکا پر زور دے رہا ہے کہ وہ فردو پلانٹ پر حملہ کرے، لیکن دفاعی ماہرین اسے نہایت پیچیدہ اور حساس کارروائی قرار دے رہے ہیں۔
ایران کی نطنز جوہری سائٹ کو اسرائیلی حملوں سے نقصان پہنچنے کی تصدیق
دوسری جانب اقوام متحدہ کے جوہری ادارے نے ایران کی نطنز جوہری سائٹ کو اسرائیلی حملوں سے نقصان پہنچنے کی تصدیق کردی۔
اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ابتدائی حملوں کے دوران ایران کی نطنز جوہری سائٹ کے زیر زمین حصے کو براہ راست نقصان پہنچا ہے۔
آئی اے ای اے کے مطابق حملوں کے فوری بعد حاصل کردہ ہائی ریزولیوشن سیٹلائٹ تصاویر کا مسلسل تجزیہ کیا گیا، جس کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ زیر زمین افزودگی کے ہالز پر اسرائیلی حملوں کے براہ راست اثرات دیکھے گئے ہیں۔
یہ پیش رفت ایران کی جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے عالمی تشویش میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ نطنز سائٹ ایران کے اہم ترین ایٹمی پروگراموں میں شمار ہوتی ہے۔ IAEA کے اس اعلان سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔