ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی سطح پر تشویش کے سائے مزید گہرے ہو گئے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے دوٹوک اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو کبھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ترجمان امریکی دفتر خارجہ ٹیمی بروس نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ وزیر خارجہ مارکو روبیو بھی متعدد بار اس موقف کو واضح کر چکے ہیں، اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس حوالے سے شفاف اور ٹھوس ترجیحات رکھتے ہیں۔
ترجمان کے مطابق، صدر ٹرمپ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ جنگوں کا خاتمہ سفارتی راستوں سے چاہتے ہیں، اور ایران کے ایٹمی پروگرام پر ڈپلومیسی سے متعلق فیصلہ صرف صدر ٹرمپ ہی کریں گے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان اہم ملاقات آج ہوگی
اسرائیل کی حمایت کا باضابطہ اعلان
دوسری جانب، جی سیون ممالک نے کینیڈا میں جاری اجلاس کے بعد اسرائیل کی حمایت کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے اور جی 7 ممالک اسرائیل کی سلامتی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی، اور موجودہ ایران-اسرائیل بحران کا پرامن حل نکالنا ضروری ہے۔ جی 7 نے زور دیا کہ غزہ میں جنگ بندی اور مشرق وسطیٰ میں تنازعات کا خاتمہ عالمی استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔
چین نے ٹرمپ پر ایران اسرائیل کشیدگی میں جلتی پر تیل ڈالنے کا الزام عائد کردیا
اعلامیے میں توانائی کی عالمی منڈیوں پر پڑنے والے ممکنہ اثرات پر بھی تشویش ظاہر کی گئی، اور کہا گیا کہ ہم خیال شراکت داروں کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھتے ہوئے مارکیٹ کے استحکام کو یقینی بنایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق، امریکی صدر ٹرمپ نے اعلامیے کے متن میں ترمیم کے بعد اس کی مکمل تائید کر دی ہے۔
جرمن چانسلر کی مسلم دشمنی، اسرائیل کی کھلی حمایت
برلن: جرمن چانسلر فریڈرک مارس نے اسرائیل کی بھرپور تائید کرتے ہوئے ایک بار پھر مسلم دنیا کو مایوس کیا ہے۔ اسرائیل کے حالیہ حملوں کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ”اسرائیل ہم سب کے مفاد میں کام کر رہا ہے“۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملوں سے ایرانی حکومت سخت کمزور ہو چکی ہے اور ممکن ہے کہ وہ اپنی سابقہ طاقت کے ساتھ دوبارہ منظر پر نہ آ سکے۔
فریڈرک مارس نے ایران کے مستقبل کو غیر یقینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”ہمیں انتظار کرنا ہوگا کہ نئی صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے۔“ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی نئی پیش رفت سامنے آتی ہے تو جرمنی، فرانس اور برطانیہ دوبارہ سفارتی معاونت فراہم کرنے کو تیار ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلر کا یہ بیان نہ صرف مسلم دشمنی کی غمازی کرتا ہے بلکہ خطے میں مغربی طاقتوں کی جانب سے اسرائیلی موقف کی یکطرفہ حمایت کا بھی ثبوت ہے۔ اسلامی دنیا میں ان بیانات پر شدید ردعمل سامنے آنے کا امکان ہے۔