ایکواڈور کے صدر مبینہ قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے

0 minutes, 0 seconds Read

جنوبی امریکا کے ملک ایکواڈور کے صدر ڈینئل نوبوا مبینہ قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے ہیں، جبکہ حملے میں ملوث پانچ ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

حکام کے مطابق صدر نوبوا کی گاڑی کو پانچ سو سے زائد مظاہرین نے گھیر کر پتھراؤ کیا، مبینہ طور پر گولیاں بھی چلائی گئیں تاہم وہ محفوظ رہے۔ گاڑی پر گولیاں لگنے کے واضح نشانات ہیں۔

صدارتی آفس کے مطابق گرفتار ملزمان کے خلاف دہشت گردی اور قاتلانہ حملے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

وزیر دفاع گیان کارلو لوفرڈو نے صدر نوبوا کی تصویر جاری کی جس میں وہ دھوپ کے چشمے لگائے اپنی گولیوں سے متاثرہ گاڑی کے قریب کھڑے ہیں۔ ساتھ ہی کہا کہ ’یہ صدر کسی چیز سے نہیں رکتا، اور یہی اس بات کی علامت ہے کہ ملک بھی نہیں رکے گا۔‘

صدر کے دفتر کی جانب سے جاری ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین سڑک کے کنارے پتھراؤ کر رہے ہیں جبکہ گاڑی کی کھڑکیوں پر دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔

اس حملے کی مذمت کوسٹاریکا، پانامہ اور ہونڈوراس کی حکومتوں نے بھی کی ہے۔ دارالحکومت کیٹو میں بھی حکومت مخالف احتجاج ہوا، تاہم پولیس کی موجودگی میں مظاہرین پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔

وزیر ماحولیات و توانائی اینس مانزانو نے تصدیق کی کہ یہ صدر پر قاتلانہ حملہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ پانچ افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جنہوں نے صدر کے قافلے کو گھیر کر پتھراؤ کیا اور گولیاں چلائیں۔

وزیر مانزانو نے مزید کہا کہ ’صدر کی گاڑی پر فائرنگ، پتھراؤ اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا مجرمانہ فعل ہے، ہم اسے ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔‘


AAJ News Whatsapp

صدارتی دفتر نے کہا کہ گرفتار ملزمان پر دہشت گردی اور قاتلانہ حملے کے الزامات عائد کیے جائیں گے۔ تاہم خبر رساں ادارے ”رائٹرز“ کے مطابق ابھی تک یہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ صدر کی گاڑی پر واقعی گولی چلائی گئی یا نہیں۔

صدر نوبوا نے بعد ازاں طلبہ سے خطاب میں کہا کہ ان کی حکومت ایسے حملوں کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔

ادھر ملک کی بڑی مقامی تنظیم ”کونائی“ نے الزام لگایا ہے کہ صدر کے دورے کے موقع پر مظاہرین کے خلاف پولیس اور فوج نے طاقت کا استعمال کیا، جس میں بوڑھی خواتین بھی زخمی ہوئیں۔ ان کے مطابق کم از کم پانچ افراد کو غیرقانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔

یہ مظاہرے حکومت کی جانب سے ڈیزل پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کے خلاف کیے جا رہے ہیں۔ صدر نوبوا نے پندرہ ستمبر کو ایک صدارتی فرمان کے ذریعے یہ سبسڈی ختم کر دی تھی، جس کے بعد ملک بھر میں ہڑتالیں، مارچ اور سڑکوں کی ناکہ بندی شروع ہوگئی۔

حکومت کا موقف ہے کہ سبسڈی ختم کرنے سے سالانہ 1.1 بلین ڈالر کی بچت ہوگی، جو چھوٹے کسانوں اور ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ افراد کو امدادی طور پر دی جائے گی۔

اپریل میں دوبارہ منتخب ہونے والے صدر نوبوا نے ملک میں سیکورٹی سخت کرنے کے لیے کئی صوبوں میں ہنگامی حالت نافذ کر رکھی ہے۔

Similar Posts