ورکنگ پیرنٹس، بچوں کی پرورش میں درپیش چیلنجز سے کس طرح نمٹیں

0 minutes, 0 seconds Read

پہلے وقتوں میں سادہ طرزِ زندگی کی وجہ سے انسان کی مادی ضروریات بھی انتہائی مختصر ہوتی تھیں۔ گھر کا ایک فرد کماتا تھا اور پورا کنبہ پرورش پاتا۔ لیکن اب قدریں خاصی بدل چکی ہیں۔ میاں بیوی جہاں سماجی زندگی میں دو پہیوں کی حیثیت رکھتے ہیں وہاں معاشی استحکام کے لئے بھی اب ان دونوں کا ہم قدم ہونا ایک امرِ مجبوری ہے۔ تاہم معاشی خوشحالی کے حصول میں دونوں کی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث ان کی گھر یلو زندگی کوکئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

دراصل پیرینٹنگ ایک ذمہ داری کو ساتھ ایک اسکل بھی ہے جس کو آپ کے گھر کا ملازم ، اسکول ٹیچر یا ہوم ٹیوٹر نہیں کر سکتا یہ ’والدین‘ کی ہی ذمہ داری ہےاور ورکنگ پیرینٹس کیلیے تو اس کی اہمیت دو چند ہے ۔ یورپ کے کئی معاشروں میں بچوں کی ابتدائی عمر تک میاں بیوی اپنی جاب کو اس طرح سے مینیج کرتے ہیں کہ باری باری جاب سے بریک لیتے ہیں اور جب بچے شعوری پختگی کی عمر تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر دونوں بیک وقت اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں۔ سارامعاملہ آپ کی ترجیحات کا ہے۔

والدین کی یہ عادتیں بچوں کے دماغ کو کمزور کردیتی ہیں

اگر آپ کی ترجیحات میں اولاد کی اعلیٰ پرورش سرِ فہرست ہے تو پھر ایسےاقداما ت ناگزیر ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج پروفیشنل ورک کے ساتھ گھر کو بیلینس رکھنا ہے۔ جاب پر جاتے ہوئے گھر اور بچوں کے مسائل گھر پر ہی چھوڑ کر جانا اور کام سے آتے ہی گھر یلو معاملات میں پوری انرجی اور جزبے کے ساتھ اپنا ذہن تبدیل کرکے گھر اور بچوں کو سنبھالنا خاصا چیلنجنگ ہے لیکن ایسی صورتِ حال میں دونوں رولز کو درست انداز میں ادا کر نا ہی اصل کامیابی ہے۔

آج کے دور میں سب سے بیش قیمت چیز ’وقت‘ ہے۔ ایک انسان کا اپنی ذات ، بچوں ، عزیز و اقربا اور روزمرہ امور کی انجام دہی میں توازن رکھنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے کیونکہ بقول شخصے، ’سوچ رہا ہوں خود کو کتنے حصوں میں تقسیم کروں۔‘

بہرحال، باقی امورپرتو سمجھوتہ ممکن ہے لیکن بچوں کے معاملے میں کوتاہی کی قطعاً گنجائش نہیں۔ ماہرین کے مطابق بچے کی سات سال تک کی عمر اس کے شعور کے بنیادی خدوخال طے کرتی ہے۔ اس دوران والدین کی بھرپور توجہ ہی اسکی شخصیت سازی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ عمر کےاس حصے میں بچے کا شعورایک ریکارڈنگ مشین کی مانندہوتا ہےجس میں بنیادی رویوں بشمول محبت، نفرت ، غصہ، حسداور خیرو شر جیسے بنیادی جذبوں کے جو پیٹرن ریکارڈ ہورہے ہوتے ہیں اورآگے چل کر بعینہ اس کی فطرت کے عکاس ہوتے ہیں۔

ورکنگ وومن کے لیے یہ آسان طریقے بچوں کے ہوم ورک کرانے میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں

عبدالستار ایدھی ایک درخشاں ستارہ

عبدالستار ایدھی کی ماں بچپن میں ان کو دو آنے دیتی تھیں، ایک آنہ اپنےخرچ کے لئے اور دوسرا آنہ کسی کی مدد کے لئے۔ بظاہر ماں کے اس معمولی عمل سے مستقبل میں دنیا کوسماج کی خدمت کا ایک ایسادرخشاں ستارہ عطا ہوا جس کی روشنی ہمیشہ کے لئے امر ہو گئی۔ الغرض اوائل عمر میں انسانی شعور ایک بیج کی مانند ہوتا ہے اور ظاہر ہے جیسا بوئیں گے ویسا ہی کاٹیں گے۔

ہر بچہ اپنے اندر ایک نیچرل ٹیلنٹ رکھتا ہے جس کی جانچ پرکھ تب ہی ممکن ہے کہ آپ اس کے ساتھ بھر پور وقت گزاریں اور اس کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے اور ان پر کام کیا جائے۔ اس کے اندر ethics اور values راسخ کریں ۔ آپ کے بچے سوشل جینئیس ہوں ، ان میں سوشل نارم ہوں۔ ان کو آداب یا مینرز کی تربیت ہو۔ وہ اظہار کریں ، شیئرکریں اور بتدریج خود مختار ہوجائیں، لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے کہ جب آپ ان کو کوالٹی ٹائم اور اعتماد دیں گے، بصورت دیگر وہ اپنے مسائل کسی اور سے شیئر کرنا شروع کر دیں گے۔ خاص کر بلوغت کی ابتدائی عمر کے دوران بچے جنس مخالف میں کشش محسوس کرتے ہیں اوران میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور اگر مضبوط تربیت نہ ہو تو کئی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔

چند ہی گھرانے ایسے ہیں جو اس ساری صورتحال کو بہت عمدہ انتظامی صلاحیت سے چلا پاتے ہیں یا پھر مشترکہ خاندانی نظام میں جہاں بچوں کے دادا ،دادی اور نانا، نانی وغیرہ والدین کی عدم موجودگی میں کسی حد تک اس کمی کی تلافی کرتے ہیں۔ لیکن عمومی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ نتیجتا ً ہر دوسرا گھراضطراب، ڈیپریشن، پینک ڈس آرڈرزاور دیگر فوبیاز جیسےذہنی امراض کا شکار ہے۔ خاص کر شروع کی بے توجہی کے باعث جب بچے بگڑ جاتے ہیں تو والدین پر اس کے شدید ذہنی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اتنی مشقت کے بعد اگر لاحاصل رہیں توپھر یہ تو سراسر زیاں کا سودا ہے۔

والدین کی لڑائیوں کے بچوں پر گہرے اثرات، ماہرین کی اہم ٹپس

ورکنگ پیرنٹس اچھی ٹائم مینیجمنٹ سے ہی ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ لہٰذا انہیں غیر ضروری معمولات کو چھوڑنا پڑتاہے ۔اپنا سکرین ٹائم صرف انفارمیشن اور بات چیت تک محدود رکھنے اور دیگر غیر ضروری مصروفیات کو ختم کرنا پڑتاہے۔ اسی طرح ماں باپ کی آپس کی اچھی بات چیت، اور ان دونوں کی فرداً فرداً بچوں سے کمیونیکیشن کی تکون اگر مثبت ہے تو اولاد کی تربیت میں آسانی رہتی ہے۔ کیونکہ میاں بیوی مکمل ذہنی ہم آہنگی اور یکسوئی کے ساتھ بچوں کی پرورش ، تعلیم و تربیت کے ہدف متعین کرتے ہیں۔ایسے بندوبست کے ساتھ پروان چڑھنے والے بچوں میں خود داری یا سیلف اسٹیم اور اس کی نظروں میں اپنے لیےقدر اور ذات پر اعتماد ہوتا ہے۔

اس کے برعکس اگر دلوں میں ایک دوسرے کے لئے احساس، زندگی کی ترجیحات اوروقت کے حساب سے کام کی تقسیم عمدہ نہیں ہےتو آپس کی بک بک جھک جھک اور چڑچڑے پن کے اثرات فوری طور بچوں پر پڑیں گے ، جبکہ والدین کی اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی بھی غیر تسلی بخش ہو گی، توجہ کے ارتکاز میں کمی، ذہنی اور اعصابی دباؤمیں اضافے اور روابط اور بات چیت کم ہونے سے نفرت اور تلخیاں بڑھ جائیں گی۔ لہٰذا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے،آج ہی اپنے مسائل کے حل کے لئے وقت نکالیں سوچیں اور کامیابی کی جانب بھر پورعملی قدم اٹھائیں ۔

Similar Posts