سندھ ہائیکورٹ میں قائم مقام گورنر سندھ اویس قادر شاہ کو گورنر ہاؤس کے دفاتر نہ دینے کے خلاف دائر درخواست پر اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ عدالت نے گورنر ہاؤس کے تمام دفاتر فوری طور پر کھولنے کا حکم دے دیا ہے اور پیر تک عدالتی احکامات پر عمل درآمد کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں واضح کیا کہ قائم مقام گورنر گورنر ہاؤس کا کوئی بھی حصہ استعمال کرنے کے مجاز ہیں اور انہیں آئینی ذمہ داریوں سے روکنا قابلِ قبول نہیں۔
یاد رہے کہ قائم مقام گورنر اویس قادر شاہ نے آج امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس گورنر ہاؤس میں طلب کیا تھا جس میں وزیر داخلہ، آئی جی، چاروں ڈی آئی جیز، سی ٹی ڈی و دیگر اعلیٰ حکام کو بلایا گیا تھا، تاہم گورنر ہاؤس کے دروازے بند ہونے کی وجہ سے اجلاس منعقد نہ ہو سکا۔ اویس قادر شاہ اور افسران کو واپس جانا پڑا، جس پر انہوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آئینی کام سے روکنا عہدے سے مذاق ہے۔
اس واقعے کے بعد اویس قادر شاہ نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری 2 جون سے بیرونِ ملک ہیں اور بطور قائم مقام گورنر وہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، لیکن انہیں گورنر ہاؤس میں داخلے اور دفتری امور کی انجام دہی سے روکا جا رہا ہے جو کہ آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب گورنر ہاؤس کے ترجمان نے اس سارے معاملے کو غلط فہمی قرار دیا تھا اور وضاحت دی تھی کہ اجلاس کے لیے افسران موجود تھے، مخصوص دفتر تیار تھا، اور اگر مرکزی دفتر استعمال کرنا مقصود تھا تو بروقت اطلاع دی جاتی تو انتظامات مکمل کر لیے جاتے۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے واقعے پر پرنسپل سیکرٹری کو انکوائری کی ہدایت بھی جاری کی تھی اور کہا تھا کہ گورنر ہاؤس ہمیشہ عوام کے لیے کھلا ہے جبکہ اویس قادر شاہ بطور اسپیکر اور ذاتی حیثیت میں میرے لیے قابلِ احترام ہیں۔