ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی، ایران میں ممکنہ رجیم چینج کی کوششیں، اور خطے میں بڑھتے خطرات پر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور آزاد سیاست دانوں نے ”آج نیوز“ کے پروگرام روبرو میں میزبان شوکت پراچہ کے ساتھ گفتگو کی۔ خرم دستگیر نے کہا کہ امریکا رجیم چینج جبکہ اسرائیل جنگ چاہتا ہے، دونوں کے مقاصد مختلف ہیں۔ ندیم افضل چن نے ایران میں عوامی حمایت کا ذکر کیا، مصطفیٰ کھوکھر نے زائنسٹ پراکسی کے خطے پر ممکنہ اثرات پر خبردار کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ انجینئر خرم دستگیر نے کہا کہ اسرائیل کی ایران پر جارحیت اور بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی دھمکی، عالمی سطح پر اصولوں سے انحراف کی علامت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر دنیا قوانین پر نہیں چلے گی تو عالمی کشمکش ایک نئی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور امریکا کے مقاصد ایک نہیں ہیں، اسرائیل ایران کی جوہری صلاحیت ختم کرنا چاہتا ہے جبکہ امریکا ایران میں رجیم چینج کا خواہاں ہے تاکہ خطے میں ایک ’دوستانہ حکومت‘ قائم ہو، خصوصاً ایران کے تیل کے ذخائر اور سعودی سرحد کے تناظر میں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے گفتگو میں کہا کہ ایران ایک قدیم تہذیب اور مستحکم ریاست ہے، جہاں کی عوام موجودہ نظام حکومت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق مغربی دنیا کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں اور دباؤ کے باوجود وہاں نیشنل ازم مضبوط ہے اور عوام موجودہ قیادت کے خلاف نہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے ممالک کو رجیم چینج کا حق حاصل نہیں، اور یہ جدید دنیا کے اصولوں کے منافی ہے۔
سینئر سیاستدان مصطفیٰ نواز کھوکھر نے خبردار کیا کہ اگر یہ جنگ مزید پھیلی تو پورا خطہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایران میں اسرائیل کی حمایت یافتہ کوئی زائنسٹ پراکسی حکومت قائم کی جاتی ہے، تو اس کے خطے پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے، خصوصاً پاکستان کے لیے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران میں اسرائیلی اہداف کے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں بھارتی انٹیلی جنس نیٹ ورکس کے ملوث ہونے کے شواہد بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس وقت گراؤنڈ پر مداخلت کے لیے تیار نہیں اور خود ری پبلکن پارٹی میں بھی جنگ کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔
تینوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ علاقائی امن کے لیے سفارتی کوششوں کو تیز کیا جائے اور ایران میں رجیم چینج کی کوششوں سے باز رہا جائے، کیونکہ یہ پورے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔