برطانیہ میں ’مرضی کی موت‘ کا متنازع بل کثرت رائے سے منظور

0 minutes, 0 seconds Read

برطانیہ میں (Assisted Dying Bill) نامی متنازع بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا جس کے تحت مریض اپنی زندگی کا خاتمہ اپنی مرضی کے مطابق کر سکیں گے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق برطانوی دارالعوام نے موت کا بل منظور کر لیا، برطانوی پارلیمان میں مرنے میں معاونت کا یہ متنازعہ بل کثرت رائے سے منظور کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ بل موذی مرض میں مبتلا مریضوں کو اپنی زندگی کے خاتمے کا اختیار دے گا، بل 291 کے مقابلے میں 314 ووٹوں سے منظور کیا گیا، اب مزید جانچ پڑتال کے لیے ہاؤس آف لارڈز بھیجا جائے گا۔ برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز سے منظوری کے بعد یہ بل باقاعدہ قانون بن جائے گا۔

اس بل کو لیبر پارٹی کی رُکن کم لیڈ بیٹر نے پیش کیا تھا، جس میں معیوب بیماری میں مبتلا مریض جس کی زندگی 6 ماہ سے کم رہ گئی ہو گی، وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے کی درخواست دے سکے گا، جسے ادویات کی مدد سے مرنے میں طبعی معاونت فراہم کی جائے گی۔

10 سال تک ایک ہی تھرماس کا مسلسل استعمال کرنے والا شخص جان سے ہاتھ دھو بیٹھا

تاہم موت کے فیصلے کے وقت مریض کا ذہنی طور صحت مند ہونا لازمی شرط ہوگا، اور مریض بغیر کسی دباؤ کے اپنا فیصلہ تحریری شکل میں دے گا۔

زندگی ختم کرنے کی درخواست کی منظوری کے لیے ایک باقاعدہ پینل فیصلہ کرے گا، اس پینل میں 2 ڈاکٹرز، ایک سماجی ورکر، سینئر قانونی شخصیت اور ماہر نفسیات شامل ہوں گے، بل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ لاعلاج اور تکلیف دہ بیماری میں مبتلا شخص سکون کی موت کا انتخاب کر سکے گا۔ جب کہ بل کے مخالفین نے کہا ہے کہ یہ غیر اخلاقی قانون ہوگا جس سے زندگی کی قدر کم ہوگی۔

92 سالہ چینی خاتون سخت ورزش کرنے کی دیوانی

اراکین پارلیمنٹ کو اس بل پر آزادانہ ووٹ دینے کی اجازت دی گئی تھی، جس کا مطلب تھا کہ انہیں پارٹی کی پالیسی کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

برطانوی وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر نے اس اقدام کی حمایت کی، جبکہ کنزرویٹو رہنما کمی بیڈنوچ اور صحت کے سیکریٹری ویس اسٹریٹنگ نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔

Similar Posts