امریکا کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد ایران کے ممکنہ ردعمل پر ایرانی تھنک ٹینک ”سینٹر فار مڈل ایسٹ اسٹریٹجک اسٹڈیز“ سے وابستہ سینئر ریسرچ فیلو عباس اصلانی نے تین ممکنہ منظرناموں کا تجزیہ پیش کیا ہے۔
عرب خبر رساں ادارے ”الجزیرہ“ کے مطابق اصلانی کا کہنا ہے کہ پہلا ممکنہ منظرنامہ ایک ”محدود ردعمل“ ہو سکتا ہے، جو حملے سے ہونے والے نقصان کی شدت پر منحصر ہوگا۔
انہوں نے کہا، ’اگرچہ یہ ایک جوہری تنصیبات پر حملہ تھا، مگر اس سے بڑھ کر یہ امریکا کی جانب سے براہ راست ایران کے خلاف جنگ میں داخل ہونے کا اعلان ہے، جس پر ایران پہلے ہی متنبہ کر چکا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ دوسرا منظرنامہ ایک ”مکمل جنگ“ ہو سکتا ہے، جس میں ایران، امریکا اور اسرائیل کے مفادات پر بھرپور حملے کر سکتا ہے۔ ’یہ حملے وسیع دائرہ کار کے حامل ہو سکتے ہیں، جن میں اسرائیلی جوہری تنصیبات بھی نشانہ بن سکتی ہیں، اور ایران کے اتحادی بھی اس جنگ میں شریک ہو سکتے ہیں۔‘
ایران نے ایٹمی تنصیبات پر حملوں کی تصدیق کر دی، جوابی کارروائی کا اعلان 315
اصلانی کے مطابق، تیسرا منظرنامہ ”دو طریقوں کا امتزاج“ ہو سکتا ہے، جس میں ایران ایسے اقدامات کرے جو بظاہر محدود ہوں لیکن ان کے اسٹریٹیجک اثرات بڑے ہوں۔ ’ایران کے پاس آبنائے ہرمز جیسا دباؤ ڈالنے کا ذریعہ ہے، جسے بند کرکے خطے میں توانائی کے توازن کو متاثر کیا جا سکتا ہے۔‘
دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق، ایران کے ردعمل کی نوعیت نہ صرف اس پر منحصر ہوگی کہ حملے میں کتنا نقصان ہوا، بلکہ اس بات پر بھی کہ تہران اسے امریکا کی اعلان شدہ جنگ سمجھتا ہے یا محض ایک اسٹریٹیجک حملہ۔ خطے میں کشیدگی بڑھنے کے خدشات برقرار ہیں۔