آپریشن مڈنائٹ ہیمر: امریکا نے ایران کے جوہری ٹھکانوں پر صرف 25 منٹ میں کیسے کاری ضرب لگائی؟ تفصیلات منظر عام پر

0 minutes, 0 seconds Read

امریکا کی جانب سے ہفتے کی شب ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات پر کیے گئے حملوں کو ”آپریشن مڈنائٹ ہیمر“ کا نام دیا گیا ہے۔ امریکی فوجی حکام کے مطابق یہ کارروائی انتہائی خفیہ اور برق رفتاری سے انجام دی گئی، جس میں 125 سے زائد طیارے شامل تھے اور پورا آپریشن صرف 25 منٹ میں مکمل ہوا۔

امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل ڈین کین نے اتوار کے روز ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ اس کارروائی میں سات بی-2 اسٹیلتھ بمبار طیاروں نے حصہ لیا، جنہوں نے ایران کے جوہری مراکز ”فردو“ اور ”نطنز“ پر 30 ہزار پاؤنڈ وزنی بم گرائے، جبکہ ”اصفہان“ میں ٹوماہاک میزائلوں سے حملہ کیا گیا۔

جنرل کین کے مطابق یہ طیارے امریکی ریاست میزوری سے پرواز کر کے ایران کی فضائی حدود میں داخل ہوئے اور امریکی مقامی وقت کے مطابق تقریباً 6 بج کر 40 منٹ پر حملے کا آغاز کیا، جبکہ شام 7 بج کر 5 منٹ تک تمام بمبار طیارے ایران کی حدود سے نکل چکے تھے۔ ان کے مطابق یہ نائن الیون کے بعد بی-2 بمبار طیاروں کی سب سے طویل پرواز تھی۔

خفیہ چال اور دھوکہ

جنرل کین نے بتایا کہ مکمل خفیہ کارروائی کے تحت کچھ بمبار طیاروں کو بحرالکاہل کی سمت بطور ”ڈیکوئے“ (دھوکہ دینے کیلئے) بھیجا گیا تاکہ ایران کی توجہ بٹائی جا سکے۔ یہ حکمت عملی صرف چند منتخب اعلیٰ سطحی منصوبہ سازوں اور قیادت کو معلوم تھی۔

شام پانچ بجے ایک امریکی آبدوز نے اصفہان میں زمینی اہداف پر ٹوماہاک کروز میزائل داغے، اور اس کے بعد 6 بج کر 40 منٹ پر بی-2 بمبار طیاروں نے فردو پر پہلا ”بنکر بسٹر“ بم گرا کر حملے کا آغاز کیا۔

جنرل کین کے مطابق ایران کے فضائی دفاعی نظام حملے کے دوران خاموش رہے۔ ’ایسا لگتا ہے کہ ایران کے سطح سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سسٹمز ہمیں دیکھ ہی نہیں سکے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ آخری حملہ ٹوماہاک کروز میزائل کا تھا تاکہ عنصرِ حیرت برقرار رکھا جا سکے۔

امریکی دفاعی سیکریٹری کا دعویٰ: ’ایران کا ایٹمی پروگرام تباہ کر دیا‘

امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ، جو جنرل کین کے ہمراہ پریس بریفنگ میں شریک تھے، انہوں نے اس آپریشن کو ”بڑی کامیابی“ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایران کا جوہری پروگرام تباہ ہو چکا ہے، یہ ایک فیصلہ کن کارروائی تھی۔‘

ہیگستھ نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے دن سے واضح کر چکے ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

پس منظر: اسرائیلی کارروائیوں کا تسلسل

امریکا کا یہ حملہ اسرائیل کی قیادت میں جاری ایک ہفتے سے زیادہ عرصے کی فضائی کارروائیوں کے بعد سامنے آیا ہے، جن کا مقصد ایران کے میزائل ڈیفنس سسٹم اور جوہری انفرا اسٹرکچر کو کمزور کرنا تھا۔ اسرائیل نے 13 جون کو حملے شروع کیے تھے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے قریب پہنچ چکا ہے۔

ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے ”نور نیوز“ کے مطابق، اسرائیلی حملوں کے آغاز سے اب تک ایران میں کم از کم 430 افراد جاں بحق اور 3500 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب، اسرائیلی حکام کے مطابق 24 صیہونی شہری ہلاک اور 1,272 زخمی ہوئے ہیں۔

مشرق وسطیٰ ایک نئی جنگ کے دہانے پر

تجزیہ کاروں کے مطابق ”آپریشن مڈنائٹ ہیمر“ مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کی تمہید ہو سکتا ہے، جہاں پہلے ہی غزہ، لبنان اور شام میں بدامنی کا راج ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے پہلے اسرائیل کا ساتھ دینے سے متعلق دو ہفتوں میں فیصلہ کرنے کا کہا تھا، لیکن صرف دو روز بعد انہوں نے براہِ راست حملے کا حکم دے دیا۔

واشنگٹن کے ”سیچویشن روم“ سے اس مشن کی نگرانی بذاتِ خود صدر ٹرمپ نے کی، جس سے اس کارروائی کی سنجیدگی اور ممکنہ اثرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اب دنیا کی نظریں ایران کے ردعمل پر مرکوز ہیں، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت جوابی کارروائی کا عندیہ دے چکا ہے۔

Similar Posts