امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دی ہیگ میں ہونے والی ”نیٹو سمٹ“ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ بندی، ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے اور خطے میں امن کے امکانات پر اہم گفتگو کی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایران اسرائیل جنگ بندی پر بہت اچھے طریقے سے عمل ہو رہا ہے‘ اور یہ کہ ’میرے کہنے پر اسرائیلی طیارے واپس گئے‘۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ملکوں، ایران اور اسرائیل، نے تسلیم کیا کہ ’بس بہت ہو گیا‘ اور جنگ بندی کو موقع دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’ہمیں ایک تاریخی کامیابی ملی ہے۔ ہم نے ایران میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔‘
ایرانی جوہری تنصیبات کی تباہی میں ناکامی پر ٹرمپ اور پینٹاگون آمنے سامنے
ایران کی جوہری تنصیبات پر حالیہ امریکی حملوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے تقریباً 30 منزل نیچے بنائی گئی تنصیبات کو تباہ کیا ہے‘۔ ان کے بقول، فردو جوہری مرکز اب مکمل تباہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’ایران کو یورینیم افزودگی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اور اب ایران کبھی بھی جوہری پروگرام دوبارہ شروع نہیں کر سکے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ایران کے لیے اب جوہری ہتھیار بنانا بہت مشکل ہو گیا ہے‘ اور اگر ایران نے تنصیبات کی بحالی کی کوشش کی تو ’ہم دوبارہ حملہ کریں گے‘۔
نیٹو اجلاس: ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے پر زور، ترکیہ اور امریکا میں دفاعی تعاون بڑھانے پر اتفاق
ایران اور اس کی قوم کو سراہتے ہوئے ٹرمپ نے کہا، ’ایران ایک بہترین ملک ہے اور ایرانی قوم بہترین لوگ ہیں۔‘ تاہم ساتھ ہی خبردار کیا کہ ’ایران نیوکلیئر ہتھیار نہیں رکھ پائے گا‘۔
صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کو ایران کے لیے بھی فتح قرار دیا، کہ ’ان کا ملک بچ گیا‘، اور کہا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’خطے میں امن کے لیے امریکہ اپنا کردار ادا کرتا رہے گا‘۔
غزہ کے معاملے پر بھی بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ بڑی پیش رفت ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق، ’ونکوف نے بتایا کہ غزہ کا مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے‘۔
نیٹو سمٹ سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا کہ نیٹو اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگا اور ’نیٹو میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں‘۔ روس کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ گزشتہ روز روسی صدر نے ایران کے معاملے پر مدد کی پیشکش کی تھی۔
ایران کا ایٹمی پروگرام دوبارہ شروع کرنے کا اعلان، ’اب کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا‘
صدر ٹرمپ کے مطابق، جنگ بندی کی چند خلاف ورزیاں ضرور ہوئی ہیں لیکن مجموعی طور پر فریقین پیچھے ہٹے ہیں، جو کہ خوش آئند ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’حملہ کر کے ہم ایران کے جوہری پروگرام کو دہائیوں پیچھے لے گئے ہیں‘۔
صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ ’ایران کو پتا تھا ہم حملہ کرنے والے ہیں‘، اور یہ کہ امریکہ نے اپنی فوجی طاقت سے نہ صرف اپنا مفاد بلکہ عالمی امن کا تحفظ بھی کیا ہے۔
** ایران حملے سے پہلے یورینیم نہیں نکال سکا، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ**
ٹرمپ نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے ہمراہ نیدرلینڈز میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ انہیں یقین ہے ایران نے امریکی فضائی حملوں سے پہلے اپنی جوہری تنصیبات سے افزودہ یورینیم نہیں نکالا۔
صدر ٹرمپ نے کہا، ’انہیں کچھ نکالنے کا موقع ہی نہیں ملا کیونکہ ہم نے بہت تیزی سے کارروائی کی۔ اگر ہمیں دو ہفتے لگتے تو شاید وہ کچھ کر سکتے، لیکن اس قسم کا مواد نکالنا انتہائی مشکل اور ان کے لیے خطرناک ہوتا۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’انہیں پتا تھا کہ ہم آ رہے ہیں، اور جب دشمن کو یہ علم ہو تو وہ ایسی تنصیبات کے نیچے موجود نہیں ہوتے۔‘
صدر ٹرمپ نے ان ابتدائی انٹیلی جنس رپورٹس کو مسترد کر دیا جن میں کہا گیا تھا کہ ایران کا افزودہ یورینیم کا ذخیرہ زیادہ تر محفوظ رہا ہے اور امریکہ اس کا بڑا حصہ تباہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر امریکی حملہ مؤثر نہ ہوتا تو ایران اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی پر ہرگز آمادہ نہ ہوتا۔ ’یہ ایک تباہ کن حملہ تھا جس نے ایران کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی جنگ بندی نہ کرتے۔‘
ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ اگر ایران نے دوبارہ اپنا جوہری پروگرام بحال کرنے کی کوشش کی تو مزید حملوں کا امکان موجود ہے، تاہم انہوں نے یہ امکان کمزور قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اب وہ برسوں تک کچھ نہیں کر پائیں گے۔ ان کا پورا نیٹ ورک تباہ ہو چکا ہے اور دوبارہ اسے کھڑا کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔‘