جیسے ہی امریکی بی-2 بمبار طیاروں نے ایرانی جوہری تنصیبات پر برق رفتاری سے حملہ کیا اور تہران کے جوہری پروگرام سے منسلک تنصیبات کو نشانہ بنایا، مشرقی ایشیا میں ماہرین اور پالیسی ساز ایک نئے سوال میں الجھ گئے: کیا اس حملے کا پیغام شمالی کوریا کو مزید ضدی بنا دے گا؟
جنوبی کوریا کی کنگنام یونیورسٹی کے ماہر شمالی کوریا امور، پروفیسر لِم اُل چُل کے مطابق، ایران پر امریکی حملہ پیونگ یانگ کے دیرینہ موقف کو تقویت دے گا کہ جوہری ہتھیار ہی امریکہ کی جارحیت سے بچاؤ کی واحد ضمانت ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شمالی کوریا اس حملے کو پیشگی امریکی حملے کے طور پر دیکھ رہا ہے، اور اب وہ اپنے جوہری میزائل پروگرام میں مزید تیزی لا سکتا ہے۔‘
پروفیسر لِم نے خبردار کیا کہ شمالی کوریا روس کے ساتھ فوجی اشتراک کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔
ایران اب بھی شمالی کوریا کی مدد سے خفیہ مقام پر ایٹمی ہتھیار تیار کر سکتا ہے، ماہر کا انتباہ
یوکرین جنگ کے بعد پیونگ یانگ اور ماسکو کے درمیان فوجی شراکت داری میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، شمالی کوریا اب تک روس کو چودہ ہزار سے زائد فوجی، لاکھوں گولہ بارود، راکٹ اور میزائل فراہم کر چکا ہے۔ بدلے میں روس نے اسے فضائی دفاعی نظام، الیکٹرانک وارفیئر ٹیکنالوجی اور بہتر میزائل سسٹمز دیے ہیں۔
یہ باہمی تعاون نہ صرف شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو تقویت دے رہا ہے بلکہ اسے جدید جنگی تجربات کا موقع بھی فراہم کر رہا ہے، جو عالمی سیکیورٹی کے لیے ایک سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
دوسری جانب، امریکی تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ماہر وکٹر چا نے واضح کیا کہ امریکہ کی ایران پر حالیہ کارروائی سے شمالی کوریا کو دو خطرناک پیغامات ملے ہیں:
1۔ امریکہ شمالی کوریا کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کر سکتا جیسے اس نے ایران کے خلاف کیا۔
2
۔ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار ہی اس کی بقا کی ضمانت ہیں، اور یہ پالیسی اب ناقابل واپسی ہو چکی ہے۔
ماہرین نے ایران اور شمالی کوریا کے درمیان ایک اور اہم فرق کی نشاندہی کی: ایران نے اگرچہ یورینیم کی افزودگی کی سطح بلند کی تھی، مگر اس نے ابھی تک قابلِ استعمال جوہری ہتھیار تیار نہیں کیے۔ جبکہ شمالی کوریا کے پاس پہلے ہی 40 سے 50 کے قریب جوہری وار ہیڈز موجود ہیں اور وہ انٹرکانٹینینٹل بیلسٹک میزائلز کے ذریعے امریکہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، شمالی کوریا پر اگر کوئی حملہ کیا گیا تو اس کے نتیجے میں مکمل جوہری جنگ بھڑکنے کا خدشہ ہے۔ مزید برآں، امریکہ اور جنوبی کوریا کے دفاعی معاہدے کے تحت واشنگٹن کو کسی بھی حملے سے قبل سیئول سے مشاورت کرنا لازمی ہوگی، جو ایک اہم قانونی اور سیاسی مرحلہ ہے۔
ایران کے برعکس، شمالی کوریا کے پاس روس کے ساتھ باقاعدہ دفاعی معاہدہ بھی موجود ہے، جس کے تحت روس کسی بھی حملے کی صورت میں مداخلت کر سکتا ہے۔
پروفیسر لِم کے مطابق، ’ایران پر امریکی حملہ پھیلاؤ کو روکنے کی بجائے اسے جواز فراہم کرے گا۔ شمالی کوریا اب امریکہ پر مزید اعتبار نہیں کرے گا اور یہ کارروائی روس کے ساتھ اس کے فوجی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی وجہ بنے گی۔‘
یہ صورتحال امریکہ کی جوہری پالیسی پر بھی سوالات اٹھاتی ہے کہ آیا فوجی طاقت سے جوہری پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے یا اس سے مزید بغاوت جنم لیتی ہے۔ شمالی کوریا کا راستہ اب مزید خطرناک ہوتا جا رہا ہے — اور یہ سب کچھ ایران پر گرائے گئے بموں کی بازگشت ہے۔