خیبرپختونخوا میں منشیات اسمگلنگ کے لیے خواتین کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ایڈوکیٹ زہرہ درانی نے انکشاف کیا ہے کہ صوبے میں کمزور طبقے کی ان پڑھ خواتین کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو بھی اسمگلنگ کے مکروہ دھندے میں زبردستی یا چالاکی سے دھکیلا جا رہا ہے۔
آج نیوز سے خصوصی گفتگو میں ایڈوکیٹ زہرہ درانی جو کہ پشاور ہائیکورٹ میں گزشتہ 15 سال سے نارکوٹکس کیسز سے وابستہ ہیں انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس آنے والے کیسز میں یہ تشویشناک رجحان واضح طور پر سامنے آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض کیسز میں معصوم اور ناتجربہ کار لڑکیوں کو محبت یا نوکری کے جھانسے میں پھنسایا گیا، اور بعد ازاں انہیں منشیات لے جانے پر مجبور کیا گیا۔ زہرہ درانی کے مطابق خواتین کے لیے قانون میں نرمی ضرور موجود ہے، مگر اس جرم میں ملوث ہونے سے ان کی پوری زندگی پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایڈوکیٹ زہرہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کالجز اور یونیورسٹیوں میں آگاہی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے، تاکہ نوجوان لڑکیوں کو بروقت اس جال سے بچایا جا سکے۔ ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ نچلے طبقے کی خواتین کو باعزت روزگار اور ہنر سکھانے کے مواقع فراہم کیے جائیں، تاکہ وہ اس خطرناک دھندے سے دور رہ سکیں۔