جب ہم لفظ ’ہیکنگ‘ سنتے ہیں تو عام طور پر کمپیوٹر یا موبائل فون ذہن میں آتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اب یہ خطرہ آپ کے دماغ تک بھی پہنچ چکا ہے؟
’برین کمپیوٹر انٹرفیسس‘ وہ جدید ٹیکنالوجی جو انسانی دماغ کو مشینوں سے جوڑتی ہے، اب محض سائنسی تخیل نہیں بلکہ حقیقت بن چکی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی معذور افراد کے لیے پروسیتھٹک کنٹرول سے لے کر گیمنگ اور ذہنی تربیت تک کے شعبوں میں استعمال ہو رہی ہے۔
لیکن… خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
خیالات پڑھنے والی ڈیوائس انسانی دماغ میں نصب، معذور خاتون اظہار کے قابل ہوگئی
خطرات کیا ہیں؟
سوچوں کی چوری؟
کورنیل یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا ہے کہ بی سی آئی کے ذریعے دماغ سے ڈیجیٹل کمانڈز بھیجے جانے والے سگنلز کو ہیکرز روٹ کر سکتے ہیں۔ یعنی وہ جان سکتے ہیں آپ کیا سوچ رہے ہیں!
فیصلوں پر کنٹرول؟
غور کریں! اگر کوئی آپ کے دماغی سگنلز کو بدل دے، تو وہ آپ کے جذبات، ردِعمل یا حتیٰ کہ فیصلے بھی متاثر کر سکتا ہے۔ خاص طور پر ڈیپ برین سٹیمولیٹرز جیسی ڈیوائسز جو دماغ کے اندر نصب کی جاتی ہیں، اگر ہیک ہو جائیں، تو براہِ راست ذہنی افعال متاثر ہو سکتے ہیں۔
پانچ سالہ بچی کی ہوش میں کامیاب دماغی سرجری، نیا ریکارڈ قائم
ذہنی آزادی کا بحران؟
یہ صرف تکنیکی نہیں، اخلاقی بحران بھی ہے۔ نیورل ڈیٹا میں آپ کی بیماری، خوف، خواہشات، یا حساس خیالات ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ غیر مجاز طور پر حاصل کر لیے جائیں تو آپ کی ’ذہنی خودمختاری‘ یا Cognitive Liberty شدید خطرے میں آ جاتی ہے۔
دماغ کو سائبر حملوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک نیا شعبہ کام کر رہا ہے، ’نیورو سیکیوریٹی۔‘
جی ہاں ’نیورو سیکیوریٹی‘ ایک ابھرتا ہوا شعبہ ہے جو دماغی ڈیوائسز کو سائبر حملوں سے محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔
موت سے چند لمحے قبل دماغ میں کیا چلتا ہے، سائنسدانوں نے جواب ڈھونڈ لیا
ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ قانون سازی، اخلاقی اصول، اور سیکیورٹی پروٹوکول اس تیزی سے بدلتی دنیا کے ساتھ ساتھ اپ ڈیٹ ہونے چاہییں۔
تاہم ابھی تک کوئی حقیقی اور تصدیق شدہ کیس موجود نہیں جس میں کسی انسان کے دماغ کو مکمل طور پر ہیک کر کے اس کی یادداشت یا مرضی پر مکمل قابو پا لیا گیا ہو، لیکن چونکہ انسان کا دماغ اب ٹیکنالوجی سے جُڑنے لگا ہے، تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ، ’اگر آپ کا دماغ مشین سے جڑا ہے، تو ہیک ہونا ممکن ہے۔