سانحہ سوات کے بعد متعلقہ افسران اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی کوششوں میں مصروف نظر آ رہے ہیں، جب کہ سوات میں کئی سال قبل خریدا گیا ارلی وارننگ سسٹم تاحال نصب نہیں کیا جا سکا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں معاملہ زیر بحث آیا، جہاں ڈی پی او سوات عمر خان مسلسل سب کچھ ٹھیک ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے۔
سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں ثنا یوسف قتل کیس اور سوات میں سیلابی ریلے میں انسانی جانوں کے ضیاع کے سانحے پر تفصیلی بحث ہوئی۔ قائمہ کمیٹی نے ثنا یوسف قتل کیس کی تحقیقات جلد از جلد مکمل کرنے پر اسلام آباد پولیس کی ستائش بھی کی۔
سوات حادثے سے متلعق ڈی پی او سوات عمر خان نے کمیٹی کو بتایا کہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے الرٹ جاری کیے گئے تھے۔ ٹورسٹ ڈیپارٹمنٹ بھی ایکٹو تھا۔ فنڈز بھی جاری ہوئے تھے۔
سوات میں آفت سے قبل خبردار کرنے والا نظام کئی سال سے غیر فعال ہونے کا انکشاف
ڈی پی او سوات نے بتایا 27 جون کو سوات حادثہ ہوا۔ دو فیملیاں تھیں جن میں سے ایک کا تعلق فیصل آباد سے اور ایک کا مردان سے تھا۔
کمیٹی اراکین نے سوال کیا کیا آپ لوگوں نے پہلے سے وہاں کوئی بورڈ لگایا ہوا تھا ؟یا کوئی الرٹ جاری کیا گیا تھا؟ ڈی پی او نے بتایا کہ ہم نے اپنا جو تجزیہ کیا اس کے مطابق یہ پانی ایک دم اچانک آیا، اس کی ہمارے پاس رپورٹس بھی موجود ہیں۔
سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں ثنا یوسف قتل کیس میں اب تک کی پیشرفت پر ایس ایس پی اسلام آباد پولیس نے تفصیلی بریفنگ دی۔
پولیس حکام کی جانب سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ جیسے ہی ہمیں کال آئی، ہم موقع پر پہنچے۔ سی ڈی آر تجزیے سے پتہ لگا کہ قاتل کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔۔ ملزم عمر حیات سے ثناء یوسف کا آئی فون بھی بر آمد ہوا۔ کیس کا چالان بالکل تیار ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا چوبیس گھنٹوں کے اندر ملزم کو گرفتار کرنے پر اپکو شاباش دیتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ سب چیزوں سے مطمئن ہیں پر ایسے کیسز میں چالان اتنا سخت نہیں ہوتا اور بڑے بڑے ملزم بچ جاتے ہیں، ایسا کیوں ہیں ؟ ایس ایس پی اسلام آباد نے جواب دیا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ موقع پر ثبوت کو اکھٹا نہیں کیا جاتا۔ اس کیس میں ہم نے تاخیر نہیں کی۔