کیا لپ اسٹک کا استعمال سب سے پہلے مردوں نے کیا تھا؟

0 minutes, 0 seconds Read

خوبصورتی کی علامت سمجھی جانے والی ہونٹوں کی سرخی یعنی لپ اسٹک کا استعمال آج خواتین کے لیے ایک عام چیز بن چکا ہے، لیکن اس کی جڑیں انسانی تہذیب کے ابتدائی ادوار تک جا پہنچتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی دور میں لپ اسٹک صرف خواتین تک محدود نہ تھی، بلکہ کئی قدیم معاشروں میں مرد بھی اس کا استعمال کرتے تھے۔ بعض شواہد کے مطابق پانچ ہزار قبل مسیح کے زمانے میں شکاری اور مذہبی شخصیات مختلف قدرتی رنگوں سے اپنے ہونٹوں کو رنگتے تھے۔ ان کا مقصد صرف آرائش ہی نہیں بلکہ روحانی اثرات یا مخالف جنس کو متاثر کرنا بھی تھا۔

خواتین میں لپ اسٹک کا استعمال تقریباً 2500 ق م کے بعد عراقی تہذیب میں شروع ہوا۔ اس دور کی خواتین قیمتی پتھروں کو باریک پیس کر سفوف کی شکل میں ہونٹوں پر لگاتی تھیں۔ بعدازاں مصر کی فرعونی تہذیب میں دولت مند خواتین نے لپ اسٹک کو زیبائش کا لازمی حصہ بنا لیا۔ ان کی تیار کردہ سرخی قدرتی عناصر جیسے گہرے رنگ کے کیڑے، بھنورے، اور مچھلی کے چھلکوں سے حاصل ہونے والے چمک دار مواد پر مشتمل ہوتی تھی، جسے آج کے دور میں ’پرلسینٹ‘ کہا جاتا ہے۔

آٹھویں صدی عیسوی میں اسپین کے مسلمان ماہرِ فن اور ’طبیب ابو القاسم الزہراوی‘ نے ’پہلی بار‘ لپ اسٹک کو ایک ٹھوس اور محفوظ شکل دی۔ ان کی ایجاد نے آرائش کے اس عمل کو زیادہ قابلِ عمل اور دیرپا بنا دیا۔ سولہویں صدی میں جب ملکہ الزبتھ اول انگلینڈ کی تخت نشین ہوئیں، تو سرخ لپ اسٹک کا استعمال وہاں شاہی خواتین اور اسٹیج کی اداکاراؤں میں خاصا مقبول ہو گیا۔ اس وقت کی لپ اسٹک شہد کے موم اور سرخ پھولوں کے عرق سے تیار کی جاتی تھی۔

انیسویں صدی کے آخر میں سن 1884 میں ایک فرانسیسی کمپنی Guerlain نے لپ اسٹک کو کمرشل پروڈکٹ کے طور پر متعارف کرایا۔ اس دور کی لپ اسٹک ہرن کی چمڑی، شہد کا موم، اور کیسٹر آئل جیسے اجزاء سے بنائی جاتی تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جیسے جیسے فوٹو گرافی نے مقبولیت حاصل کی، ویسے ہی لپ اسٹک بھی یورپ اور امریکا میں عام خواتین کے لیے قابلِ قبول بننے لگی۔ 1923 میں پہلی بار سلائیڈ کرنے والی لپ اسٹک متعارف ہوئی، جسے ایک امریکی موجد جیمز بروس میسن نے ڈیزائن کیا۔ یہ آج کی عام لپ اسٹک جیسی ہی تھی، جسے کھولا اور بند کیا جا سکتا تھا۔

1930 میں مشہور کاسمیٹک کمپنی ’میکس فیکٹر‘ نے پہلا لپ گلوس مارکیٹ میں لایا، جو ہونٹوں کو چمکدار بناتا تھا۔ تاہم دوسری جنگِ عظیم کے دوران لپ اسٹک کی فراہمی محدود ہو گئی کیونکہ جنگی حالات میں میک اپ مصنوعات کی پیداوار کم کر دی گئی تھی۔ 1950 کی دہائی میں، ایک بار پھر لپ اسٹک نے مقبولیت حاصل کی، خاص طور پر ہالی وڈ کی مشہور اداکاراؤں نے گہرے سرخ رنگ کو اپنے انداز کا حصہ بنا لیا۔

1970 کی دہائی میں خوشبودار اور ذائقہ دار لپ اسٹکس متعارف ہوئیں، جو نوجوان لڑکیوں میں تیزی سے مقبول ہو گئیں۔ پھر سال 2000 آیا، جب لپ اسٹک دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی بیوٹی پروڈکٹ بن چکی تھی۔ آج یہ ہر عورت کے بیگ کی بنیادی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔ خاص طور پر سرخ رنگ کی لپ اسٹک تاحال دلکش شخصیت اور پرکشش انداز کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

ہونٹوں کی سُرخی صرف ایک آرائشی شے نہیں بلکہ انسانی تہذیب، فیشن، اور جمالیاتی ذوق کا آئینہ دار عنصر ہے، جو ہزاروں سال سے ہمارے ساتھ چلتا آ رہا ہے۔

Similar Posts