روس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے پچاس روز کی مہلت اور بصورت دیگر سو فیصد تجارتی محصولات عائد کرنے کی دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے اسے ”ناقابل قبول“ قرار دیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے منگل کے روز شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روس اس طرح کے دباؤ میں آنے والا ملک نہیں اور وہ کسی بھی نئی پابندی کا سامنا کرنے کے لیے مکمل تیار ہے۔
سرگئی لاوروف نے ٹرمپ کے بیان پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا: ’ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اس بیان کے پیچھے محرکات کیا ہیں؟ کبھی 24 گھنٹے، کبھی 100 دن اور اب 50 دن — ہم یہ سب دیکھ چکے ہیں۔ ہم واقعی سمجھنا چاہتے ہیں کہ امریکی صدر کو ایسا کہنے پر کیا مجبور کر رہا ہے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یورپی یونین کی جانب سے امریکی صدر پر یوکرین کو مزید ہتھیار فراہم کرنے کے لیے ”شدید دباؤ“ ڈالا جا رہا ہے۔ لاوروف نے یورپی ممالک پر الزام عائد کیا کہ وہ روس کے خلاف پابندیوں کے نئے مسودے تیار کر رہے ہیں، لیکن ان ہی اقدامات کا نقصان انہیں خود بھگتنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا، ’ہمیں کوئی شک نہیں کہ ہم مغربی دنیا کی کسی بھی نئی پابندی کا سامنا بخوبی کر سکتے ہیں۔‘
لاوروف نے یورپی قیادت پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کے کیئر اسٹارمر، فرانس کے ایمانوئیل میکرون اور یورپی یونین کی صدر اُرزولا فان ڈیر لائن یوکرین کو فوجی امداد میں اضافے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کے مطابق جرمن عسکری حکام روسی سرزمین پر حملوں کے لیے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل دینے پر غور کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’یورپ کی نظر میں سیزفائر کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی روک دی جائے۔ دراصل یہ جنگ بندی صرف مزید عسکری تیاریوں کا موقع بن چکی ہے۔‘
لاوروف نے مزید کہا کہ امریکی حکام بخوبی جانتے ہیں کہ روس اس طرح کی یکطرفہ جنگ بندی کو قبول نہیں کرے گا۔
اس سے قبل روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے بھی ٹرمپ کے الٹی میٹم کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ روس کسی بھی قسم کے مطالبے یا الٹی میٹم کو تسلیم نہیں کرے گا۔‘
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے منگل کے روز ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ امریکی صدر کا حالیہ بیان صدر ولادیمیر پیوٹن سے براہ راست متعلق ہے۔ انہوں نے کہا، ’ہمیں امریکی صدر کے بیان کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔‘
یاد رہے کہ پیر کو ٹرمپ نے یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے روس کو پچاس دن کی مہلت دی تھی اور متنبہ کیا تھا کہ اگر اس مدت میں معاہدہ نہ ہوا تو روس اور اس کے تجارتی شراکت داروں پر سو فیصد ثانوی ٹیرف نافذ کیے جائیں گے تاکہ ماسکو کی جنگی مالیاتی صلاحیت کو محدود کیا جا سکے۔
یوکرین جنگ، جو چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے، تاحال کسی بھی امن معاہدے تک نہیں پہنچی، جبکہ روسی صدر پیوٹن سیزفائر کی درخواستوں کو مسلسل مسترد کرتے آ رہے ہیں اور اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔