لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے پولیس کی حراست میں ملزم پر تشدد یا موت کی صورت میں مقدمے کے ٹرائل سے قبل ایف آئی اے کو کیس منتقل کرنے کی صورت میں پولیس کی درج کردہ ایف آئی آر منسوخ کرنے کا اصولی فیصلہ دے دیا ہے۔ یہ فیصلہ کانسٹیبل محمد آفتاب کی ضمانت کی درخواست پر سنایا گیا، جس میں عدالت نے 29 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔
عدالت نے واضح کیا کہ اگر کسی زیر حراست ملزم پر تشدد کا مقدمہ پولیس نے درج کیا اور وہ کیس بعد ازاں ایف آئی اے کو منتقل کر دیا گیا تو ایسی صورت میں پولیس کی ایف آئی آر منسوخ کی جا سکتی ہے، اور ایف آئی اے نئی ایف آئی آر درج کرے گی۔ تاہم اگر مقدمے کا ٹرائل شروع ہو چکا ہو تو پولیس کی ایف آئی آر منسوخ نہیں کی جا سکتی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ کسٹوڈیل ٹارچر اینڈ ڈیتھ ایکٹ 2022 پر حکومت نے نہ تو مؤثر آگاہی مہم چلائی اور نہ ہی سرکاری افسران کی تربیت کے لیے کوئی عملی اقدامات کیے۔ عدالت نے چیف سیکریٹری پنجاب کو ہدایت کی کہ اس ایکٹ پر فوری عملدرآمد کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
عدالتی معاون قرتہ العین افضل نے رائے دی کہ ایف آئی اے بغیر ایف آئی آر کے بھی تفتیش شروع کر سکتی ہے، اور اپنی تفتیش مکمل کر کے عدالت میں رپورٹ جمع کروا سکتی ہے، جس کی بنیاد پر عدالت مقدمہ چلا سکتی ہے۔
عدالت نے یہ قانونی نکات بھی طے کیے کہ:
- اگر پولیس چالان جمع کروا دے اور کیس ایف آئی اے کو منتقل ہو تو ایف آئی اے ضمنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی۔
- اگر چالان سے پہلے کیس منتقل ہو، تو ایف آئی اے تمام مواد حاصل کر کے اپنی علیحدہ رپورٹ تیار کرے گی۔
عدالت نے مزید کہا کہ ایف آئی اے انسانی حقوق کمیشن کی نگرانی میں ایسے کیسز کی تفتیش کرے گی، اور قانون کے مطابق سرکاری اہلکاروں کے خلاف کسی بھی مقدمے سے قبل متعلقہ اتھارٹی کی اجازت ضروری ہوگی۔
عدالت نے کانسٹیبل آفتاب محمود کی ضمانت دو لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ گواہان نے پولیس اہلکار پر عمومی الزامات عائد کیے، لیکن کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ملزم نے ذاتی طور پر زیر حراست شہروز حیدر پر تشدد کیا ہو۔
یہ فیصلہ پولیس اور ایف آئی اے کے درمیان دائرہ اختیار کے حوالے سے ایک اہم قانونی رہنمائی فراہم کرتا ہے، اور مستقبل میں ایسے مقدمات کی تفتیش کے طریقہ کار کو واضح کرتا ہے۔