دنیا کو انسانوں کی ضرورت ہے، سپرپاورز کی نہیں

یہ کیسا زمانہ ہے کہ جہاں زمین پر بسنے والا ہر انسان خوف کے سائے میں جیتا ہے۔ کوئی فلسطین میں اپنے بچوں کے جسم کے ٹکڑے ڈھونڈ رہا ہے،کوئی یوکرین میں ملبے کے نیچے دفن اپنے خواب تلاش کر رہا ہے اورکوئی سوڈان میں بھوک اور جنگ کے درمیان اپنی آخری سانسوں سے امید کا چراغ روشن رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

دنیا کے ایک کونے میں جنگ کے طبل بج رہے ہیں، تو دوسرے کونے میں سفارت کاری کے نام پر سرد تجارتی سودے ہو رہے ہیں۔ کہیں امن کے نعرے ہیں، مگر ان کے پیچھے بارود کی مہک چھپی ہے۔

انسانیت کے علمبردار خود کو مہذب کہنے والے ملک وہ عالمی ادارے جوکبھی امن اور انصاف کے ضامن کہلاتے تھے، آج خاموش ہیں بلکہ خاموش نہیں شاطر ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کہاں خاموشی اختیارکرنی ہے اورکہاں شور مچانا ہے۔

فلسطین میں مرنے والا بچہ اگرکسی سپر پاورکا دوست ہوتا تو شاید دنیا کی آنکھیں اشک بار ہوتیں مگر چونکہ وہ ایک غیر اہم قوم کا بچہ ہے، اس کے خون کا حساب کوئی نہیں مانگتا۔ یہی حال یوکرین کا ہے جہاں اسلحے کے تاجر امن کے پیامبر بنے بیٹھے ہیں۔

وہ ایک ہاتھ سے جنگ بھڑکاتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے امن کی قرارداد پیش کرتے ہیں۔ ان کے لیے جنگ ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمین پر امن کے بجائے جنگ کا بازار گرم ہے۔

اقوامِ متحدہ جوکبھی مظلوم اقوام کے لیے امید کی کرن تھی، آج بے بس، کمزور اور بے اثر نظر آتی ہے۔ اس کی قراردادیں کاغذکے ٹکڑے بن کر رہ گئی ہیں۔ وہ ادارہ جسے انسانوں کے دکھ درد مٹانے کے لیے بنایا گیا تھا، اب طاقتور ممالک کے مفادات کی نگران ایجنسی بن چکا ہے۔

غریب ممالک کے لیے قانون کچھ اور ہے اور امیروں کے لیے کچھ اورکوئی سپر پاور اگر دوسرے ملک پر حملہ کرے تو اسے دفاع کہا جاتا ہے لیکن اگرکوئی کمزور ملک اپنی آزادی کے لیے کھڑا ہو جائے تو اسے دہشت گردی قرار دے دیا جاتا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا کو مزید سپر پاورزکی نہیں، انسانوں کی ضرورت ہے۔ وہ انسان جو مذہب نسل زبان یا سرحد سے بالاتر ہوکر دوسرے انسان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھے۔

مگر افسوس آج کا انسان مشین بن گیا ہے۔ اس کے دل میں خبر کی گونج تو سنائی دیتی ہے مگر احساس کی لرزش نہیں، اس کے ہاتھ میں موبائل ہے مگر ضمیرکہیں گم ہو چکا ہے۔

سرمایہ داری نے انسان کو ایک عدد میں بدل دیا ہے۔ ایک ایسا عدد جو خرید و فروخت کے قابل ہے۔ کسی ملک کا تیل، کسی خطے کی زمین، کسی قوم کے بچے، سب بازار میں بولی لگانے کی اشیاء بن گئے ہیں۔

انسانی حقوق کی بات صرف وہاں ہوتی ہے جہاں منڈی کے مفادات خطرے میں ہوں۔ جہاں منافع یقینی ہو وہاں ظلم بھی استحکام کہلاتا ہے۔

دنیا کے یہ سپر پاور ممالک دراصل خوف کے قلعے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی طاقت ظلم پر کھڑی ہے اس لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ سچ نہ بولا جائے۔

کہیں قلم توڑ دیا جاتا ہے کہیں زبان خاموش کرا دی جاتی ہے اور جب کوئی شاعر کوئی لکھنے والا کوئی عام مزدور سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ریاست کا دشمن غدار یا دہشت گرد کہا جاتا ہے۔لیکن تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ طاقت مٹ جاتی ہے، انسان باقی رہتا ہے۔

ہٹلر ، موسولینی، فرانکو اور ان جیسے کتنے ہی سپر پاورز آئے اور گئے مگر ان کے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والے انسان آج بھی زندہ ہیں، ان کے الفاظ، ان کے خواب، ان کے گیت، اب بھی سڑکوں دیواروں اورکتابوں میں زندہ ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ انسانیت کا فلسفہ بندوق سے نہیں ضمیر سے جنم لیتا ہے۔ امن کی بنیاد طاقت سے نہیں انصاف سے پڑتی ہے، اگر انصاف غائب ہو تو امن صرف ایک دکھاؤا ہے۔ وہ امن جو فلسطین کے ملبے پر کھڑا ہے یوکرین کی لاشوں کے سائے میں سانس لے رہا ہے یا سوڈان کی بھوک میں مر رہا ہے، وہ امن نہیں وہ جرم ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان سپر پاورزکے دھوکے سے باہر نکلیں جو خود کو دنیا کے نجات دہندہ کہتے ہیں مگر دراصل ہر جنگ کے پیچھے انھی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی انسانیت واپس لینی ہوگی وہ انسانیت جو نہ مشرقی تھی، نہ مغربی نہ لال تھی نہ نیلی بلکہ صرف انسانیت تھی۔

ہوسکتا ہے کہ ہماری آوازکمزور ہو مگر یہی کمزور آواز تاریخ میں سب سے گونج دار ثابت ہوتی ہے۔ یہی آواز دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ بندوق کے سائے میں کبھی امن نہیں پنپتا اور شاید کسی دن جب یہ زمین زخموں سے بھر جائے گی تب کوئی نیا سورج طلوع ہوگا، ایک ایسا سورج جس کی روشنی میں عام انسان امن اور چین سے جی رہا ہوگا اور اس دن دنیا کو سپر پاورزکی نہیں، صرف انسانوں کی ضرورت ہوگی۔

دوسری طرف بینجمن نیتن یاہو ہے جسے 21 نومبر 2024 میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہونے پر اس کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، مگر اب تک وہ نہ صرف آزاد گھوم رہا ہے بلکہ اس کی طاقت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

یہ تمام صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ سپر پاور ممالک کے معاملات اور ترجیحات کچھ اور ہیں اور رہیں گی۔ ان فیصلوں سے دنیا کی آبادی کتنی بری طرح متاثر ہو رہی ہے، اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اسلحے کی خرید و فروخت ان کے لیے صرف کاروبار ہے۔ دنیا کو جنگ میں دھکیلنے سے ان کے کاروبارکو نفع حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے جنگ یا اس کی تباہ کاری سے ان کو رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔

Similar Posts