کہاں تو مودی ہی کیا تمام ہی بی جے پی کے رہنما طالبان کو قاتل، جاہل اور دہشت گرد قرار دیتے تھے اورکہاں انھوں نے انھیں اپنے گلے لگا لیا، کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے طالبان کے تعلقات پاکستان کے ساتھ روزبروز خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں، چنانچہ بھارتی سیکریٹری خارجہ کو کابل بھیجا گیا جس نے طالبان کو کوئی بڑی لالچ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے حوصلوں کو بڑھایا، ساتھ ہی طالبان وزیر خارجہ کو دہلی کا دورہ کرنے کی دعوت دے دی۔
طالبان تو چاہتے ہی یہی تھے کہ پاکستان کے خلاف کوئی ان کی مدد کرے۔ حالانکہ پاکستان ان سے کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کر رہا تھا اور ان کی تجارت کا راستہ بھی بند کرنا نہیں چاہتا، صرف کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پاکستان پر حملے کرنے سے روکنا چاہتا ہے، مگر طالبان کو یہ بات بہت ناگوارگزری، شاید اس لیے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے طالبان کی اوپر سے لے کر نچلی سطح تک کی تنظیموں میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔
اس کے دہشت گرد افغان حکومت میں بھی موجود ہیں، چنانچہ طالبان ان کی مخالفت کیسے کر سکتے ہیں۔ پاکستانی حکومت طالبان سے پہلے بھی کئی دفعہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لینے کے لیے کہہ چکی ہے مگر وہاں سے جو جواب آیا وہ بہت ہی حیرت انگیز تھا کہ ٹی ٹی پی نے انھیں کابل میں اقتدار تک پہنچانے میں مدد کی ہے چنانچہ وہ اس کے خلاف کیسے کوئی کارروائی کر سکتے ہیں۔
اس سے تو ظاہر ہوا کہ پاکستان نے مغربی ممالک اور خصوصاً امریکا کو افغانستان سے نکالنے کے لیے جو کوششیں کی، وہ سب بے کار تھیں۔ اب تو انھیں پاکستان کے بجائے ٹی ٹی پی کی قربانیاں اور ہمدردیاں یاد ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان نے انھیں امریکی چنگل سے نجات دلانے کے لیے امریکا سے بھی مخاصمت مول لی تھی۔
امریکی وزراء برابر پاکستان کے خلاف بیان دیتے رہے حتیٰ کہ خود صدر ٹرمپ نے پاکستان کو طالبان کا ساتھ دینے پر دھمکیاں دیں اور پھر پاکستان کی امداد بھی بند کر دی۔ امریکی حکومت کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح پاکستان کو طالبان کی حمایت سے روکا جائے مگر پاکستان نے امریکا جیسے اہم اور اپنے اسٹرٹیجک پارٹنر تک کی پرواہ نہیں کی۔
دوسری طرف بھارت مسلسل طالبان کے خلاف کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کی مدد کرتا رہا۔ بھارت ان دونوں حکومتوں کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملے کراتا رہا۔ اسی زمانے میں ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو پھر زندہ کر دیا گیا۔ پاکستان نے ڈیورنڈ لائن کو ہمیشہ پاک افغان بارڈر کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
یہ افغانستان کی بدقسمتی ہے کہ وہاں کبھی کوئی پائیدار حکومت قائم نہیں رہی ہے۔ یہاں قائم ہونے والی تمام حکومتیں کسی نہ کسی بیرونی طاقت کی طفیلی رہی ہیں۔ یہ ماضی میں تیمور لنگ، چنگیزخان، سکندر اعظم وغیرہ کی سلطنتوں کا حصہ رہا ہے۔
اس پر ایرانی بادشاہوں نے بھی قبضہ کیا۔ روس کے زیر تسلط بھی رہا۔ انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے سے قبل بھی روسی حکومت افغانستان پر قبضہ کرنے کی خواہاں تھی جسے انگریزوں نے ناکام بنا دیا تھا کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ روس افغانستان کے بعد برصغیرکو بھی اپنا ہدف بنا کر ان کا کھیل خراب کر سکتا ہے۔
مغلیہ دور میں یہ ہندوستان کا حصہ رہا۔ بابر اور اس کے خاندان کی کئی قبریں کابل میں ہی ہیں۔ انگریز افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد اس پہاڑی اور غیرترقی یافتہ علاقے سے خود دست بردار ہو گئے تھے البتہ 1893 میں اس وقت کے افغان منتظم امیر عبدالرحمن سے ایک سرحدی معاہدہ طے کیا جس کے تحت ڈیورنڈ لائن کو افغانستان اور ہندوستان کے درمیان باقاعدہ سرحد تسلیم کیا گیا۔
اس معاہدے پر انگریزوں کی جانب سے سیکریٹری خارجہ سر ہنری ڈیورنڈ نے دستخط کیے تھے چنانچہ انھی کے نام سے یہ سرحد مشہور ہو گئی۔ اس کے بعد افغانستان میں کئی حکومتیں بدلیں مگر کسی بھی حکمران نے اس حد بندی کو نہیں چھیڑا۔
جب تقسیم ہند کا مطالبہ زور پکڑا اور پاکستان کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی تو انگریز رہنماؤں نے افغانستان کے اس وقت کے امیر امان اللہ خان کو ورغلا کر ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ کھڑا کردیا، ساتھ ہی پختونستان کا شوشہ بھی چھوڑ دیا جسے سرحدی گاندھی کے ذمے کر دیا گیا۔
14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آ گیا مگر افغان حکومت نے پاک افغان سرحد کو متنازعہ بنانے کے لیے پراپیگنڈا شروع کردیا۔ حالانکہ 1948 میں افغانستان نے پاکستان سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے جس کا مطلب تھا کہ انھوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ ڈیورنڈ لائن کو بین الااقوامی سرحد بھی تسلیم کر لیا ہے۔
مگر وہ بدستور ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ بنانے کے لیے پراپگینڈا کرتے رہے جس پر 1952 میں دولت مشترکہ کے وزیر مسٹر بیکر نے وضاحت کی کہ ڈیورنڈ لائن ایک مستقل سرحد ہے جو عالمی قوانین کے مطابق ہے اور یہ بھی وضاحت کی گئی کہ نئے ملک کے وجود میں آنے کے بعد تمام سابقہ معاہدے اور ذمے داریاں اسے منتقل ہو جاتی ہیں، اس طرح ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔
1976 میں اس وقت کے افغان حکمران سردار داؤد پاکستان کے دورے پر آئے تو انھوں نے ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ سردار داؤد کی اس پیشکش سے ہی ڈیورنڈ لائن کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں کتنی جان ہے۔
بس یہ ایک شوشہ ہے جو پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر طالبان ہی کیا، افغانستان کے تمام رہنما یہ سمجھ لیں کہ اگر وہ اپنے ملک کو یوں ہی کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف استعمال کرتے رہے تو یہ ہمیشہ ہی ایک غیرترقی یافتہ اور دہشت گرد ملک بنا رہے گا، نیز عالمی طاقتیں اور بھارت جیسا مسلم دشمن ملک اسے اپنے مفاد میں بربادی سے دوچارکرتا رہے گا۔