کہیں آپ کی پسندیدہ کافی ’کچلے ہوئے لال بیگ‘ سے تو نہیں بنی؟ چونکا دینے والا انکشاف

0 minutes, 0 seconds Read

اگر آپ بھی صبح کی شروعات ایک کپ کافی سے کرتے ہیں تو یہ خبر آپ کو ہلا کر رکھ دے گی۔ حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پیک شدہ کافی پاؤڈر میں کچلے ہوئے لال بیگ شامل ہوتے ہیں، اور امریکی ادارہ برائے خوراک و ادویات (ایف ڈی اے) نے بھی اس کی جزوی طور پر تصدیق کر دی ہے۔

ایف ڈی اے کے مطابق تیار شدہ خوراک، خصوصاً پیک شدہ کافی میں کچھ مقدار میں حشرات الارض — جن میں لال بیگ بھی شامل ہیں — کی موجودگی کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں ہوتا، اور اسی لیے ایک مخصوص حد تک یہ ”قابل قبول“ سمجھا جاتا ہے۔

کہانی کیسے منظر عام پر آئی؟

یہ حیران کن انکشاف سب سے پہلے 1980 کی دہائی میں امریکہ میں سامنے آیا جب ایک بائیولوجی کے پروفیسر کو پیک شدہ کافی سے شدید الرجی ہو گئی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ انہیں لال بیگ سے بھی بالکل ویسی ہی الرجی تھی۔ یہ مشاہدہ اس وقت ہوا جب پروفیسر صرف تازہ پکی ہوئی کافی پینے کے لیے روزانہ طویل فاصلہ طے کرتے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے جب اس پر سوال اٹھایا تو پروفیسر نے انکشاف کیا کہ پیک شدہ کافی پینے پر انہیں وہی الرجک علامات محسوس ہوتی ہیں جو لال بیگ سے ہوتی ہیں، جس کے بعد شبہ ظاہر کیا گیا کہ پیک شدہ کافی میں ممکنہ طور پر کچلے ہوئے لال بیگ شامل ہو سکتے ہیں۔

پیک شدہ کافی کیوں خطرناک ہو سکتی ہے؟

ایف ڈی اے کے مطابق کافی بیجوں کو ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والی گوداموں میں نمی، اندھیرا اور صفائی کی کمی کے باعث لال بیگ، کیڑے اور چوہے باآسانی پہنچ جاتے ہیں۔ گرین کافی بینز (Green Coffee Beans) اکثر ان حشرات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

جب ان بیجوں کو گرائنڈ کر کے پاوڈر بنایا جاتا ہے تو ان کیڑوں اور ان کے ذرات کو مکمل طور پر علیحدہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے پیک شدہ، پری گراؤنڈ کافی میں 10 فیصد تک حشریاتی آلودگی ”قابل قبول حد“ میں تصور کی جاتی ہے۔

بھارت یا پاکستان میں بھی یہی خطرہ؟

اگرچہ یہ انکشاف امریکا میں سامنے آیا، تاہم بھارت، پاکستان یا دیگر ممالک میں بھی یہی خطرہ موجود ہو سکتا ہے، کیونکہ مقامی سطح پر بننے والی پری گراؤنڈ کافی میں بھی صفائی اور معیاری کنٹرول کا فقدان ہو سکتا ہے۔

محفوظ رہنے کا طریقہ کیا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ ان خدشات سے بچنا چاہتے ہیں تو معروف اور معیاری برانڈز کی کافی استعمال کریں، اور جہاں ممکن ہو وہ کافی خریدیں جو آرگینک ہو یا مقامی سطح پر چھوٹے پیمانے پر تیار کی گئی ہو۔ سب سے محفوظ طریقہ یہ ہے کہ آپ کافی بینز خریدیں اور انہیں گھر پر خود پیسیں۔ اس طرح آپ جان سکیں گے کہ آپ کے کپ میں کیا جا رہا ہے۔

یہ انکشاف جہاں کافی کے شوقین افراد کے لیے ایک جھٹکا ہے، وہیں خوراک کی صفائی اور پروسیسنگ پر بھی سنجیدہ سوالات کھڑے کرتا ہے۔ کیا واقعی ہم وہی پی رہے ہیں جو ہم سمجھتے ہیں؟

Similar Posts