جی ہاں، آپ نے بالکل درست پڑھا — ایک دلہن، دو شوہر، اور وہ بھی آپس میں سگے بھائی! بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع سرمور کے پہاڑی گاؤں شِلائی میں ایک حیران کن اور صدیوں پرانی روایت آج بھی زندہ ہے، جہاں عورت ایک سے زائد مردوں کی بیوی بنتی ہے، اور یہ مرد اکثر آپس میں بھائی ہوتے ہیں۔
12 سے 14 جولائی تک جاری رہنے والی اس غیر معمولی شادی میں کنہات گاؤں سے تعلق رکھنے والی سنیتا چوہان کی شادی پرادیپ نیگی اور کپل نیگی، دونوں بھائیوں سے ہوئی۔ شادی کی تقریب ٹرانس گری علاقے میں بڑی دھوم دھام سے منعقد ہوئی جس میں سیکڑوں دیہاتیوں نے شرکت کی۔ پرادیپ ایک سرکاری محکمے میں کام کرتا ہے جبکہ اس کا چھوٹا بھائی کپل بیرون ملک ملازمت کرتا ہے۔
ایسا گاؤں جہاں شادی والے دن دولہا کو دلہن کے گھر بھیج دیا جاتا ہے
دونوں بھائیوں اور دلہن کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ انہوں نے آپسی رضامندی اور خاندانی مشورے سے بغیر کسی دباؤ کے کیا۔ شادی کی ویڈیو منظرعام پر آتے ہی سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہو گیا، جہاں لوگوں نے حیرت، دلچسپی اور تنقید کے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔
’جوڑیدارَن‘ یا ’دراوپدی پراتھا‘: صدیوں پرانی روایت
یہ روایت مقامی طور پر ”جوڑیدارن“ یا ”دراوپدی پراتھا“ کے نام سے جانی جاتی ہے، جس کی جڑیں مہا بھارت کی کہانی میں دراوپدی اور پانچ پانڈَو بھائیوں تک جاتی ہیں۔ ہٹی قبیلے کے افراد، جنہیں حال ہی میں حکومت کی جانب سے شیڈول ٹرائب کا درجہ دیا گیا ہے، اس رسم کو اپنی ثقافتی پہچان اور خاندانی اتحاد کا ضامن سمجھتے ہیں۔
مغربی دلہنیں گھونگھٹ کیوں نکالتی ہیں؟
قبیلے کے مطابق، اگر خاندان کا کوئی ایک مرد کسی حادثے یا بیماری کا شکار ہو جائے، تو دوسرا بھائی خاندان کی دیکھ بھال اور نسل کے تسلسل کو یقینی بناتا ہے۔ اس طرح زمینیں بھی تقسیم ہونے سے بچ جاتی ہیں، اور خاندانی نظام مضبوط رہتا ہے۔
قانونی پیچیدگیاں اور روایتی تحفظ
اگرچہ بھارت میں یہ رسم قانونی طور پر تسلیم شدہ نہیں، مگر ہماچل پردیش کے کچھ علاقوں جیسے کنّور، لاہول-اسپیتی اور سرمور میں یہ آج بھی جاری ہے۔ سینئر وکیل ران سنگھ چوہان کا کہنا ہے کہ ہماچل ہائی کورٹ نے اس رسم کو ”جوڑیدار قانون“ کے تحت کچھ حد تک تحفظ فراہم کیا ہے۔ ان کے مطابق، ’یہ یہاں ایک عام روایت ہے، میڈیا کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ روایت خاندانوں کو جوڑ کر رکھتی ہے۔‘
فراعین مصر کی ایک قبیح روایت جس کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں
روایت بمقابلہ جدیدیت
تاہم جدید تعلیم، شہری طرز زندگی اور نوجوان نسل کی سوچ میں تبدیلی کے باعث اس رسم کے بتدریج ختم ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ہٹی کمیونٹی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری کُندن سنگھ شاستری کے مطابق، ’جیسے جیسے نوجوان پڑھ لکھ کر شہروں کی طرف جا رہے ہیں، ”جوڑیدارن“ آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہے۔‘
فی الحال، ہٹی قبیلے کے 147 پنچایتوں میں یہ روایت اب بھی سانس لے رہی ہے، لیکن کب تک؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔