پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں بجلی کی قیمت، کیپیسٹی پیمنٹس اور آئی ایم ایف سے سستی بجلی پر جاری مذاکرات کے حوالے سے کئی اہم انکشافات اور سوالات سامنے آئے۔ پاور ڈویژن نے بتایا کہ آئی ایم ایف کو سستی بجلی فراہمی کیلئے دو تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ جبکہ اجلاس میں 200 یونٹ والے مسئلے کے حل پر غور بھی کیا گیا۔
پاور ڈویژن کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق 2015 میں کیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 141 ارب روپے ادا کیے گئے تھے، جو 2024 میں بڑھ کر 1400 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ حکام نے اس میں اضافے کی وجہ نئے ایل این جی اور درآمدی کوئلے سے چلنے والے مہنگے پاور پلانٹس اور ڈالر کی قدر میں اضافے کو قرار دیا۔
سیکرٹری پاور ڈویژن نے انکشاف کیا کہ پاکستان کے 58 فیصد صارفین ایسے ہیں جو ماہانہ 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں اور حکومت انہیں 60 فیصد تک سبسڈی فراہم کر رہی ہے۔ تاہم اب حکومت اس کیٹیگری کو ختم کر کے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی بنیاد پر سبسڈی دینے کی طرف جا رہی ہے، جس کے تحت 2027 سے غریب صارفین کو براہ راست نقد امداد دی جائے گی۔
آئی ایم ایف کو دی گئی دو تجاویز
سیکرٹری پاور نے بتایا کہ آئی ایم ایف کو سستی بجلی فراہمی کے لیے دو تجاویز پیش کی گئی ہیں:
- موجودہ صنعتوں کو دوسری شفٹ میں عالمی نرخوں پر بجلی دینا
- نئی صنعتوں، ڈیٹا مائننگ اور کرپٹو کو کم ریٹ پر بجلی فراہم کرنا
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے ان تجاویز پر بات چیت جاری ہے، اور منظوری کی صورت میں ان پر عملدرآمد کے لیے وفاقی کابینہ سے فوری منظوری لی جائے گی۔ تاہم اجلاس میں رکن کمیٹی عمر ایوب نے کہا کہ ’حکومت آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے کے بجائے خود فیصلہ کرے۔‘
تھر کوئلہ اور مقامی وسائل پر واپسی
سیکرٹری پاور نے تسلیم کیا کہ درآمدی ایندھن پر انحصار نے بجلی کو مہنگا کر دیا ہے اور اب ترجیح مقامی ذرائع جیسے تھر کوئلہ، پن بجلی اور متبادل توانائی کو دی جا رہی ہے۔
ان کے مطابق، جامشورو پاور پلانٹ کو تھر کوئلے پر منتقل کیا جائے گا، تھر کوئلہ دیگر پلانٹس تک لانے کے لیے ریلوے ٹریک بچھانے کی منصوبہ بندی ہے اور آئندہ 10 سالوں میں درآمدی فیول پر نیا پلانٹ نہیں لگے گا۔
مہنگی بجلی، لوڈشیڈنگ اور عوامی سوالات
رکن کمیٹی شازیہ مری نے شدید اعتراض اٹھایا کہ جب ملک میں اضافی بجلی دستیاب ہے تو لوڈشیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟ انہوں نے الزام لگایا کہ ’تھر کوئلے سے سستی بجلی بنانے کے منصوبے مافیا کے دباؤ پر برسوں روکے گئے‘ اور ساہیوال پلانٹ کی مخالفت کو ”بیوقوفی“ تسلیم کیا جا رہا ہے۔
جنید اکبر نے 200 یونٹ تک بجلی کے مسئلے کا فوری حل تلاش کرنے کی ہدایت کی، جب کہ ندیم عباس نے کہا کہ یہ معاملہ لاکھوں صارفین کے مفاد سے جڑا ہے۔
بجلی اسکیموں میں تاخیر اور بدانتظامی
اجلاس میں اسکیموں کی تکمیل میں تاخیر، فنڈز کے ضیاع اور ناقص ریکارڈ پر بھی سخت سوالات اٹھائے گئے۔ فیسکو کے سی ای او نے بتایا کہ 1600 اسکیموں میں سے 500 مکمل ہو چکی ہیں، جب کہ باقی تین ماہ میں مکمل کر دی جائیں گی۔ تاہم اراکین نے منافع، رائٹ آف وے، اور میٹرز کی عدم فراہمی پر ناراضی کا اظہار کیا اور خصوصی آڈٹ کی سفارش کی۔