سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اہم قانونی نکتے پر فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کسی اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کے زیرالتوا ہونے کے باعث ازخود چیلنج شدہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں رُک سکتا۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے تحریر کیا، جو چار صفحات پر مشتمل ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایک کیس کی سماعت کی، جس کا آغاز 2010 میں بہاولپور کی ایک زمین سے متعلق تنازع سے ہوا تھا۔ فیصلے کے مطابق، لاہور ہائیکورٹ بہاولپور بینچ نے 2015 میں معاملہ ریونیو حکام کو ریمانڈ کرتے ہوئے انہیں ہدایت دی تھی کہ قانون کے مطابق دوبارہ فیصلہ کیا جائے، مگر ایک دہائی گزرنے کے باوجود ڈپٹی لینڈ کمشنر بہاولپور نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ ریمانڈ آرڈر پر عملدرآمد میں 10 سال کی تاخیر ہوئی، جو غیر آئینی اور ناقابل قبول طرز عمل ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں تسلیم کیا کہ فیصلے پر عملدرآمد سے روکنے کے لیے کسی عدالت کی جانب سے کوئی اسٹے آرڈر جاری نہیں کیا گیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ریمانڈ آرڈرز کو اختیاری سمجھنا آئین اور قانون کی توہین کے مترادف ہے۔ زیرالتوا اپیل یا نظرثانی کی درخواست کسی بھی عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کو مؤخر کرنے کا جواز نہیں بن سکتی۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے واضح کیا کہ محض زیر التوا مقدمے کی بنیاد پر فیصلے پر عملدرآمد روکنا عدالتی احکامات کی صریح توہین کے مترادف ہے۔ عدالت نے چیف لینڈ کمشنر کو ہدایت دی کہ وہ اس حوالے سے پالیسی گائیڈ لائنز جاری کریں اور عدالت میں تمام ریمانڈ کیسز کی مانیٹرنگ کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے تمام متعلقہ اتھارٹیز کو ہدایت دی ہے کہ ریمانڈ آرڈرز پر فوری عملدرآمد کیا جائے، اور آئندہ کسی قسم کی تاخیر یا غفلت ناقابل قبول ہوگی۔ عدالت نے تمام پٹیشنز غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے نمٹا دیں اور تین ماہ میں تمام ریمانڈ کیسز کی تفصیلی رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو جمع کرانے کی ہدایت کی۔