قدیم انسان بچے کھاتے تھے؟ ساڑھے 8 لاکھ سال پرانی دریافت نے چونکا کر رکھ دیا

0 minutes, 0 seconds Read

ایک ناقابلِ یقین سائنسی انکشاف نے دنیا کو چونکا دیا ہے۔ اسپین کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے دریافت کیا ہے کہ انسانوں کے قدیم آباؤ اجداد تقریباً ساڑھے 8 لاکھ سال پہلے بچوں کو بھی شکار بنا کر کھایا کرتے تھے۔

یہ حیران کن ثبوت اسپین کے شمالی علاقے آتاپیورکا (Atapuerca) کی ’گران دولینا‘ (Gran Dolina) نامی غار میں کھدائی کے دوران سامنے آیا۔ کاتالان انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن پیلیو ایکولوجی اینڈ سوشل ایوولوشن (آئی پی ایچ ای ایس) کے محققین کا کہنا ہے کہ دو سے چار سالہ بچے کی گردن کی ہڈی ملی ہے۔ اس ہڈی پر واضح کٹاؤ کے نشان موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بچے کا سر دھڑ سے الگ کیا گیا تھا، بالکل ایسے ہی جیسے کسی جانور کو شکار کر کے گوشت الگ کیا جاتا ہے۔

بچہ خور؟ یا خوراک کی مجبوری؟

یہ باقیات ہومو اینٹیسیسر نامی انسانی نوع کی ہیں، جو سائنسدانوں کے مطابق جدید انسان (ہومو سیپیئنز) اور نیندرتھل دونوں کا مشترکہ قدیم جد ہو سکتا ہے۔

ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر پالمیرا سالادیے کے مطابق، ’کٹ لگانے کی جگہ اور طریقہ کار نہایت درست ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ عمل جان بوجھ کر اور مہارت سے کیا گیا تھا۔ بچہ ایک شکار کی طرح گوشت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔‘

یہ بات تو پہلے ہی تسلیم شدہ ہے کہ ابتدائی انسان بعض اوقات آدم خوری کرتے تھے، لیکن یہ خاص دریافت اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس میں بچے کے کھائے جانے کے شواہد ملے ہیں، جو کہ غیر معمولی اور نایاب ہے۔

ڈاکٹر سالادیے نے مزید کہا، ’ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مرنے والوں کو صرف خاص مواقع پر نہیں بلکہ بار بار اسی طرح کا سلوک کیا جاتا تھا۔ یہ کوئی استثنائی واقعہ نہیں بلکہ معمول کی بات تھی۔‘

ہومو اینٹیسیسر کون تھے؟

ہومو اینٹیسیسر تقریباً 1.2 ملین سے8 لاکھ سال پہلے یورپ میں رہتے تھے۔ یہ موجودہ انسانوں کی نسبت پست قد اور مضبوط جسامت کے حامل تھے۔ ان کا دماغی حجم 1000 سے 1150 مکعب سینٹی میٹر تک ہوتا تھا، جو آج کے انسانوں کے دماغ (تقریباً 1350 مکعب سینٹی میٹر) سے چھوٹا ہے۔

کیا یہ دریافت تاریخ کا رخ بدل سکتی ہے؟

یہ نیا انکشاف سائنسدانوں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ انسانوں کی ابتدائی زندگی، موت، اور مردہ افراد سے برتاؤ کے متعلق اپنی سوچ پر نظرِ ثانی کریں۔

یہ دریافت نہ صرف ہمارے ماضی کے بارے میں اہم سوالات کھڑے کرتی ہے، بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ انسانیت کا سفر کس قدر پیچیدہ اور حیران کن رہا ہے۔

ہزاروں سال پہلے کے انسان ہمارے جیسے نہ تھے، نہ ان کی سوچ، نہ ان کا ضمیر، اور نہ ہی ان کے زندہ رہنے کے طریقے۔ جہاں آج بچوں کی حفاظت انسانیت کا فخر سمجھی جاتی ہے، وہیں قدیم دور میں بقا کی جنگ نے شاید ایسی بے رحمی کو بھی جائز بنا دیا ہو۔

بلاشبہ ایسی دریافتیں ماضی کے بند دریچوں کو کھولتی ہیں اور ہمیں دعوت دیتی ہیں کہ ہم اپنی تاریخ کو نئے زاویے سے دیکھیں۔

Similar Posts