حضور! جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟

0 minutes, 0 seconds Read

راولپنڈی میں بڑا ہی دلچسپ مقدمہ درج ہوا ہے اور وہ بھی متنازع پیکا قانون کے تحت۔ ہوا کچھ یوں کہ ٹریفک پولیس نے ایک دکان کے باہر کھڑی گاڑی کو لفٹر کے ذریعے اٹھایا، دکان دار نے گاڑی اٹھانے کی ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر ڈال دی، ایسی ہزاروں، لاکھوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر مل جائیں گی.

ٹریفک وارڈن عمران سکندر کو لگا کہ دکان دار کے اس اقدام سے ناصرف ٹریفک پولیس کے خلاف عوام میں نفرت پیدا ہوئی بلکہ اس ویڈیو کے ذریعے عوام میں اشتعال پھیلانے کی مذموم حرکت کی گئی۔

ٹریفک وارڈن نے دکان دار کے خلاف تھانہ کینٹ میں مقدمے کا اندراج کرا دیا، پیکا ایکٹ 2016کی دفعہ 21کی سب سیکشن ون ڈی کے تحت رپٹ لکھ لی گئی۔

وارڈن کے مطابق گاڑی غلط جگہ پر کھڑی کی گئی تھی، اس کے علاوہ مروجہ قانون کے مطابق غلط پارکنگ پر چالان ٹکٹ بھی دیا گیا، ملزم نے جس طرح ویڈیو کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا اس کا اقدام قابل تعزیر جرم ہے۔

پیکا قانون کے تحت غلط یا جعلی معلومات دینے پر تین سال تک سزا، اسی طرح 20لاکھ روپے جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں ایک ساتھ ہوسکتی ہیں۔

واقعی! دکان دار نے تو ٹریفک پولیس کے خلاف دانستہ طور پر غلط معلومات پھیلا دیں جس سے عوام میں خوف، انتشار اور بے چینی پھیل گئی ہے۔ ٹریفک پولیس تو آج تک صرف قانون پر عمل کرتی آئی ہے، ہر اہلکار انتہائی ذمہ داری سے اپنی ڈیوٹی انجام دیتا ہے، عوام کی خدمت و بھلائی میں مصروف رہتا ہے، نہ وہ رشوت لیتا ہے، نہ کسی کو گریبان سے پکڑ کر پٹائی کرتا ہے، نہ گالیاں دیتا ہے۔

اس دکان دار نے ٹریفک پولیس کے شفاف و بے داغ کردار پر انگلی اٹھا دی۔ تو ظاہر ہے مقدمہ تو بنتا ہے۔

اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ 20مارچ بروز جمعرات پیش آیا جب سینیر صحافی فرحان ملک کو گرفتار کرلیا گیا، غیرملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ چارج شیٹ میں یہ درج ہے کہ انھیں جان بوجھ کر ایسی معلومات پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جو جعلی ہوں یا جس سے خوف پھیلنے کا خدشہ ہو۔ صحافتی تنظیموں نے فرحان ملک کی گرفتاری کی مذمت کی اور ایف آئی اے کی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے، بیانات جاری کیے گئے ہیں، دیکھتے ہیں آگے ہماری نمائندہ تنظیمیں کیا اقدام اٹھاتی ہیں۔

صادق آباد سے بھی خبر سن لیں کہ غلام نبی کو گرفتار کیا گیا ہے، ملزم پر حکومتی شخصیات کی فیک ویڈیوز بنانے کا الزام ہے، ملزم نے مصنوعی ذہانت کا غلط استعمال کیا اور ریاست سمیت سرکاری شخصیات کو نقصان پہنچایا، جعلی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کردیں۔ مقدمہ تو درج ہونا ہی چاہیے۔

پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور متحدہ قومی موومنٹ سمیت متعدد سیاسی جماعتوں نے متنازع پیکا ایکٹ کی مخالفت کی، بقول اپوزیشن لیڈر عمر ایوب آزادی کے نام پر حاصل کیے گئے وطن میں اب کوئی آزاد نہیں، میڈیا پابندیوں کی زد میں ہے، جو بولتا ہے متنازع قانون کے تحت بند کردیا جاتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ بل مسلم لیگ ن نے پیش کیا جو اپوزیشن میں تھی تو آزادی صحافت کے لیے جان دینے کو تیار تھی، پیپلز پارٹی نے بل پر تنقید کی اور منظوری میں اپنا کردار ادا کیا، صدر آصف زرداری جس طرح سے میڈیا کی تنقید کو برداشت کرتے رہے ہیں، ایسی قوت برداشت رکھنے والا کوئی دوسرا رہنما نہیں ہوسکتا، انھوں نے بھی اس ایکٹ پر دستخط کردیے لیکن صحافیوں کی اکثریت کو یقین ہے کہ صدر زرداری نے یہ دستخط مجبوری میں ہی کیے ہوں گے۔

یہاں پر بھارتی شاعر مرحوم راحت اندوری کا سنایا گیا واقعہ یاد آرہا ہے، انھوں نے بتایا کہ بھارت میں ایمرجنسی کے زمانے میں انھوں نے ایک مشاعرے میں کہہ دیا تھا کہ سرکار چور ہے تو اگلے روز انھیں کوتوالی میں طلب کرلیا گیا، افسر نے پوچھا کہ رات آپ نے مشاعرے میں یہ کہا ہے کہ سرکار چور ہے، تو انھوں نے تسلیم کیا کہ یہ جملہ کہا ہے لیکن یہ نہیں بولا کہ کہاں کی سرکار چور ہے، ہندوستان کی چور ہے، یا پاکستان کی چور ہے، یا برطانیہ کی۔ جس پر انڈین پولیس افسر انھیں دیکھ کر مسکرایا اور کہا اچھا! آپ ہمیں بے وقوف بھی سمجھتے ہیں، کیا ہمیں معلوم نہیں کہ سرکار کہاں کی چور ہے۔

بقول اندوری صاحب

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
ہمارے منھ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منھ میں تمھاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
آخری مصرع میں سے ہندوستان کا لفظ ہٹا کر قارئین اپنی مرضی کا ملک پڑھ لیں۔

ہندوستانی شاعر

Similar Posts