روس کے سابق صدر اور موجودہ سیکیورٹی کونسل کے نائب چیئرمین دمتری میدویدیف کی جانب سے سوویت دور کے ”ڈیڈ ہینڈ“ نیوکلیئر سسٹم کی یاد دہانی اور امریکا کو بالواسطہ دھمکی کے جواب میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوابی ردعمل دیتے ہوئے امریکی جوہری آبدوزیں ”موزوں علاقوں“ کی طرف تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ نے یہ اعلان سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر کیا، جس کے بعد بین الاقوامی حلقوں میں ایک بار پھر نیوکلیئر کشیدگی پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
یہ صورتحال نہ صرف سفارتی سطح پر تشویش ناک ہے بلکہ عالمی سلامتی کو لاحق خطرات کو بھی نمایاں کر رہی ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب “ نیو اسٹارٹ معاہدہ“ (New START Treaty) عملاً غیر مؤثر ہے۔
”نیو اسٹریٹیجک آرمز ریڈکشن ٹریٹی“ (New START) 2010 میں امریکا اور روس کے درمیان طے پائی تھی، جس کا مقصد دونوں ممالک کے نیوکلیئر ہتھیاروں کی تعداد اور صلاحیت کو محدود کرنا تھا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک صرف 1550 جوہری وارہیڈز اور 700 لانچرز رکھ سکتے تھے۔
معاہدے میں ایک دوسرے کے ہتھیاروں کی نگرانی، ڈیٹا شیئرنگ اور معائنہ شامل تھا تاکہ غلط فہمی یا اشتعال سے بچا جا سکے۔
ویسے تواس معاہدے کی مدت 2026 میں ختم ہو گی، لیکن روس نے 2023 میں اس معاہدے کی کئی شقیں معطل کر دیں اور اب معاہدہ عملاً غیر مؤثر ہوگیا ہے۔
ٹرمپ نے روس کے قریب جوہری آبدوزیں تعینات کرنے کی وجہ بتا دی
’Dead Hand‘ نظام: روس کا پراسرار انتقام
میدویدیف کے بیان میں جس نیوکلیئر سسٹم کا حوالہ دیا گیا، وہ روس کا ”ڈیڈ ہینڈ“ (Dead Hand) یا ”پیریمیٹر سسٹم“ ہے۔ یہ ایک نیم خودکار جوابی حملے کا نظام ہے۔ اگر روسی قیادت مکمل طور پر تباہ ہو جائے تو یہ نظام خودکار طور پر امریکا یا دشمن ریاست پر جوہری حملہ کر سکتا ہے۔ یہ نظام زلزلے، تابکاری اور مواصلاتی خاموشی جیسے اشاروں پر کام کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ نظام دشمن کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ”اگر ہم ختم ہوئے، تو تم بھی بچ نہیں سکو گے۔“
یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے بیان کے بعد روسی پارلیمنٹ کے رکن وکٹر وودولاتسکی نے کہا کہ امریکی آبدوزیں پہلے سے روسی نیوکلیئر آبدوزوں کے نشانے پر ہیں اور کسی اضافی ردعمل کی ضرورت نہیں۔
دوسری جانب روسی تجزیہ نگار فیوڈور لوکیانوف نے ٹرمپ کے بیان کو غیر سنجیدہ قرار دیا اور کہا کہ ٹرمپ اپنے جذباتی انداز میں اظہار کرتے ہیں، امریکی فوجی قیادت شاید اس اعلان سے لاعلم ہو۔
سفارتی بیانات اور اندرونی رابطے
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی سینیٹر مارکو روبیو دونوں اعتراف کرچکے ہیں کہ واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان براہ راست فوجی تصادم ناقابل قبول ہے، جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پس پردہ دونوں ملکوں کے درمیان محدود لیکن سنجیدہ رابطے قائم ہیں۔
نئے معاہدے کی ضرورت
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر نیوکلیئر تصادم سے بچنا ہے تو New START جیسے کسی نئے معاہدے پر مذاکرات فوری شروع ہونے چاہئیں۔ ایک ایسا عبوری معاہدہ، جس میں ڈیٹا شیئرنگ اور فوجی رابطے بحال کیے جائیں، عالمی سطح پر کشیدگی کو کم کر سکتا ہے۔ خود ٹرمپ بھی اپنے بیان میں نیوکلیئر ہتھیاروں کو ”دنیا کا سب سے بڑا خطرہ“ قرار دے چکے ہیں، جو کسی نئی ڈپلومیسی کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔
کارروائی نہ کرتے تو ایران کچھ ہفتوں میں ایٹمی طاقت بن سکتا تھا، صدر ٹرمپ
دنیا کس موڑ پر کھڑی ہے؟
ٹرمپ کا جوابی اعلان محض ایک سیاسی حربہ ہے یا عسکری پالیسی میں تبدیلی کا آغاز؟ یہ وقت بتائے گا، لیکن ایک بات طے ہے کہ روس اور امریکا کے درمیان نیوکلیئر معاملات پر بڑھتی ہوئی کشیدگی دنیا کو ایک بار پھر سرد جنگ کی دہلیز پر لا کھڑا کر رہی ہے۔ کسی بھی فریق کی معمولی غلط فہمی، غلطی یا اشتعال انگیز اقدام تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔