امریکا نے سابق روسی صدر کی جوہری دھمکی کے بعد دو نیوکلیئر آبدوزوں کو ”اسٹریٹیجک مقامات“ پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو کہ سرد جنگ کے دور کی حکمت عملی کی یاد دلاتا ہے۔ روس کے سابق صدر دمتری میدویدیف نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ”مردہ معیشت“ کے طنز پر ردِعمل دیتے ہوئے ”ڈیڈ ہینڈ“ کا حوالہ دیا تھا۔
یہ فیصلہ گزشتہ شب اس وقت کیا گیا جب میدویدیف نے ٹرمپ کو ”ڈیڈ ہینڈ“ نظام کی دھمکی دی، جو ایک خودکار یا نیم خودکار نیوکلیئر ہتھیاروں کا کنٹرول سسٹم ہے۔ اس نظام کا مقصد یہ ہے کہ اگر روسی قیادت کسی حملے میں مار دی جائے تب بھی یہ نظام جوابی جوہری حملہ کر سکے۔ کریملن نے ابھی تک اس امریکی اقدام کا سرکاری ردعمل نہیں دیا، تاہم روسی پارلیمنٹ کے ایک سینئر رکن وکٹر وودولاتسکی نے خبردار کیا ہے کہ روس کے پاس دنیا کے سمندروں میں امریکا سے کہیں زیادہ نیوکلیئر آبدوزیں موجود ہیں۔
ان کے بقول، ’روس کی نیوکلیئر آبدوزوں کی تعداد دنیا بھر میں امریکا سے کہیں زیادہ ہے، اور جن امریکی آبدوزوں کو روس کے قریب منتقل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ پہلے ہی روس کے نشانے پر ہیں۔‘
امریکا اور روس کا اپنی آبدوزیں ایک دوسرے کے سامنے لانے کے اعلانات کے بعد اب سوال اٹھتا ہے کہ دونوں میں سے کس کی زیر آب طاقت زیادہ ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ دونوں جوہری طاقتوں کی آبدوزوں کی تعداد اور ان کی صلاحیت معلوم ہو۔ اسی لئے ذیل میں روس اور امریکا کی آبدوزوں کا ایک مختصر موازنہ پیش کیا گیا ہے۔
امریکا کی آبدوزیں
امریکی بیلسٹک میزائل آبدوزیں (اوہائیو کلاس)

اوہائیو کلاس آبدوزیں امریکی بحریہ کی وہ زیر آب طاقت ہیں جو خاموشی سے نیوکلیئر وارہیڈز لانچ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انہیں ”بومرز“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس وقت 14 ایسی آبدوزیں سروس میں ہیں، جو 15 سال تک بغیر بڑے مرمت کے کام کر سکتی ہیں۔ ان میں 20 تک سب میرین لانچڈ بیلسٹک میزائلز (ایس ایل بی ایمز) لوڈ کئے جا سکتے ہیں، جن کا اہم ہتھیار ”ٹرائڈنٹ ٹو ڈی 5“ (Trident II D5) میزائل ہے۔
امریکی فاسٹ اٹیک آبدوزیں

امریکا تین اقسام کی ایٹمی حملہ آور آبدوزیں چلاتا ہے: ورجینیا کلاس، سی وولف کلاس، اور لاس اینجلس کلاس (688 کلاس)۔ ان میں ٹوماہاک اور ہارپون میزائلز کے ساتھ ایم کے-48 ٹورپیڈوز بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہ آبدوزیں دشمن کی آبدوزوں یا بحری جہازوں کو تلاش کرکے تباہ کرنے، خفیہ آپریشنز، نگرانی، اور بارودی سرنگوں کے خطرے کے پیش نظر استعمال کی جاتی ہیں۔
امریکی بحری بیڑے میں ورجینیا کلاس کی 24 آبدوزیں موجود ہیں جن میں یو ایس ایس ہوائی، یو ایس ایس میسوری اور یو ایس ایس نارتھ کیرولائنا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ امریکی بحریہ کا جدید ترین زیرِ آب جنگی پلیٹ فارم ہے جس میں کئی نئی تکنیکی جدتیں شامل کی گئی ہیں۔ اس میں اسپیشل آپریشن فورسز کی معاونت کیلئے مخصوص خصوصیات موجود ہیں اور غوطہ خوروں کیلئے ایک لاک اِن/لاک آؤٹ چیمبر بھی شامل ہے۔

سی وولف کلاس میں تین آبدوزیں ہیں، جن میں پہلی یو ایس ایس سی وولف ہے، جو 1997 میں کمیشن کی گئی تھی۔ سی وولف کلاس آبدوزوں میں عمودی طور پر میزائل داغنے کا نظام موجود نہیں ہے۔

688-کلاس (لاس اینجلس کلاس) امریکی آبدوز فورس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان میں سے کم از کم 24 اس وقت سروس میں ہیں۔ یہ آبدوزیں 1976 میں سوویت خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں اور اپنی تیز رفتاری اور خفیہ رہنے کی صلاحیت کی وجہ سے انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔ جب یہ ریٹائر ہوں گی تو ان کی جگہ ورجینیا کلاس آبدوزیں لیں گی۔

روسی بیلسٹک میزائل آبدوزیں
روس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا آبدوزوں کا بیڑا ہے، جس میں تقریباً 64 آبدوزیں شامل ہیں۔ ان میں سے 14 بیلسٹک میزائل آبدوزیں (ایس ایس بی اینز) اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے ہیں، جن میں بورے کلاس اور ڈیلٹا فور کلاس شامل ہیں۔
روسی نیوی کے پاس 8 بورے کلاس آبدوزیں ہیں، جن میں 16 بولاوا ایس ایل بی ایمز اور چھ 533 ملی میٹر کے ٹورپیڈو لانچر ہوتے ہیں۔ یہ آبدوزیں سمندری بارودی سرنگیں اور اینٹی آبدوز راکٹس بھی داغ سکتی ہیں۔ ان کا عملہ 100 سے زائد افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔

ڈیلٹا فور کلاس اب ریٹائر کی جا رہی ہیں، جن میں سے 6 اب بھی سروس میں ہیں اور 16 سینیوا میزائل سے لیس ہیں۔

روسی فاسٹ اٹیک آبدوزیں
روس کے پاس چار یاسن کلاس جوہری آبدوزیں ہیں، جو نسبتاً چھوٹی اور کم عملے کی حامل ہوتی ہیں۔ یہ آبدوزیں پانچ 3ایم54-1 کالیبر میزائل یا چار پی-800 اونکس میزائل لے جا سکتی ہیں، جو طویل فاصلے تک زمینی یا بحری اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ٹرمپ نے روس کے قریب جوہری آبدوزیں تعینات کرنے کی وجہ بتا دی
اکولا کلاس آبدوزیں، جنہیں روسی زبان میں ”شارک“ بھی کہا جاتا ہے، روسی بحریہ کی خاموش قاتل آبدوزیں ہیں۔ ان میں کالیبر، اونکس یا گرانیٹ میزائل اور ٹورپیڈو سسٹمز نصب ہوتے ہیں، اور یہ امریکی لاس اینجلس کلاس کا جواب سمجھی جاتی ہیں۔

یہ تناؤ ایک بار پھر دنیا کو سرد جنگ جیسے ماحول کی جانب دھکیل رہا ہے، جہاں آبدوزیں سمندروں میں اور میزائل فضا میں مقابلے کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔