’پاکستان پرامن مقاصد کیلئے ایرانی جوہری پروگرام کی حمایت کرتا ہے‘؛ دونوں ممالک کے درمیان اہم معاہدوں پر دستخط

0 minutes, 0 seconds Read

وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی وفد کو پاکستان آمد پر خوش آمدید کہا اور دونوں ممالک کے درمیان اخوت و برادری پر مبنی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا عزم دہرایا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ’ایران ہمارا انتہائی برادر اور دوست ملک ہے، اور صدر مسعود پزشکیان کا پہلا دورۂ پاکستان ہمارے لیے باعثِ افتخار ہے۔ ہم نے باہمی ملاقات میں تعلقات کے تمام پہلوؤں پر تفصیل سے بات چیت کی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے 24 کروڑ عوام نے ایران پر اسرائیلی جارحیت کی سخت مذمت کی ہے۔ وزیراعظم نے شہدا کی بلندی درجات اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کرتے ہوئے ایرانی افواج اور عوام کی بہادری کو خراج تحسین پیش کیا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ “ایرانی قیادت نے دانشمندانہ انداز میں شاندار فتح حاصل کی، اور دشمن کے خلاف مضبوط فیصلے کیے۔’’

وزیراعظم نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’پاکستان پرامن مقاصد کے لیے ایران کے جوہری پروگرام کی حمایت کرتا ہے اور ایران کے ساتھ ہر قدم پر کھڑا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے آج کئی اہم مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں جنہیں جلد باضابطہ معاہدوں میں تبدیل کیا جائے گا۔’ہمارا ہدف 10 ارب ڈالر کی باہمی تجارت ہے، جو ہم جلد حاصل کریں گے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور ایران کی سوچ ایک ہے، اور خطے میں امن و ترقی کے لیے دونوں ملکوں کا وژن یکساں ہے۔

وزیراعظم نے اسرائیل کی غزہ میں جاری بربریت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’غزہ میں ہر لمحہ معصوم بچوں اور خواتین کا قتل عام ہو رہا ہے، اسرائیل خوراک کو بھی فلسطینیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ مہذب دنیا کو اب بھرپور آواز اٹھانی چاہیے اور فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے زور دیا کہ ’دنیا کو غزہ میں امن کے لیے متحد ہونا ہوگا، کیونکہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بھی غزہ سے مختلف نہیں۔ کشمیر کی وادی مظلوم کشمیریوں کے خون سے سرخ ہوچکی ہے۔‘

’امت مسلمہ کے اتحاد اور دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے‘

ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے پریس کانفرنس سے خطاب میں پاکستانی قوم، وزیر اعظم اور تمام متعلقہ اداروں کی پرتپاک مہمان نوازی پر دلی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے علما کرام اور سیاسی قیادت کے ساتھ گفتگو نہایت مفید اور تعمیری رہی، جس سے دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی اعتماد کو فروغ ملا۔

ایرانی صدر نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایران، فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے پاکستان کی آواز اور عملی حمایت کو دل سے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’عصر حاضر میں امت مسلمہ کو غیر معمولی چیلنجز کا سامنا ہے، ایسے میں اتحاد، یکجہتی اور مشترکہ موقف اپنانا سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔‘

صدر پزشکیان نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات صرف جغرافیہ یا معیشت پر نہیں بلکہ مشترکہ ثقافت، مذہب اور نظریاتی ہم آہنگی پر قائم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’علامہ اقبال کی شاعری صرف پاکستان ہی نہیں، بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کے پیغام کی اساس امت مسلمہ کا اتحاد ہے اور یہی ہماری پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے‘۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین جزو ہیں، اور دونوں ممالک سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدان میں دوطرفہ روابط کو نئی جہتوں میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ صدر نے کہا کہ حالیہ ملاقاتوں میں مختلف شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں کا تبادلہ کیا گیا ہے جو مستقبل میں تعاون کی بنیاد بنے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان کے ساتھ مشترکہ اقتصادی زونز کے قیام اور سرحدی تجارت کے فروغ کے لیے بھی اقدامات کر رہے ہیں، جب کہ سرحدی سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے دوطرفہ تعاون جاری ہے‘۔

علاقائی حالات پر بات کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ اسرائیل خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ایجنڈے پر کاربند ہے، اور اس کی غزہ، لبنان اور شام میں جاری جارحیت اسی مذموم عزائم کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی کاروائیاں پورے خطے کے امن کو داؤ پر لگا رہی ہیں۔

انہوں نے اقوام متحدہ اور بالخصوص سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی مظالم کا فوری اور موثر نوٹس لے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر دنیا کو امن درکار ہے تو مسلمان ممالک کو متحد ہو کر ایک مشترکہ موقف اپنانا ہوگا۔ علاقائی امن اور ترقی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور ہم سب کو مل کر اس راستے پر چلنا ہوگا۔‘

صدر پزشکیان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ایران پاکستان کے ساتھ تمام سطحوں پر روابط برقرار رکھنے اور طے شدہ مفاہمتی یادداشتوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پرعزم ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں فوری اقدامات کرنے ہوں گے، تاخیر سے صرف پیچیدگیاں بڑھتی ہیں‘۔

معاہدوں پر دستخط

پریس کانفرنس سے قبل دونوں رہنماؤں نے باقاعدہ معاہدوں پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر مختلف وزرا اور اعلیٰ حکام کے مابین 10 سے زائد یادداشتوں اور معاہدوں کا تبادلہ ہوا جن میں درج ذیل شامل تھے:

  • وفاقی وزیر آئی ٹی شزا فاطمہ اور ایرانی ہم منصب کے درمیان ٹیکنالوجی تعاون کی یادداشت

  • ایرانی وزیر تجارت اور پاکستانی وزیر خوراک کے درمیان تجارتی تعاون کی یادداشت

  • وزیر مملکت برائے خزانہ و ریلوے اور ایرانی وزیر خارجہ کے درمیان مالیاتی و ریلوے شراکت

  • وفاقی وزیر خالد مگسی اور ایرانی سفیر رضا امیری مقدم کے درمیان مختلف سماجی و ثقافتی معاہدے

  • ثقافتی روابط، موسمیاتی تبدیلی، بحری امور، قانون و انصاف، داخلہ اور فضائی خدمات کے شعبوں میں متعدد یادداشتوں کا تبادلہ

پاکستان اور ایران کا سالانہ باہمی تجارت کو 8 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق

پاکستان اور ایران نے باہمی تجارت کو سالانہ 8 ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق کرتے ہوئے اسے ”اسٹریٹجک اقتصادی شراکت داری کے ایک نئے مرحلے“ کا آغاز قرار دیا ہے۔ یہ اہم فیصلہ وفاقی وزیرِ تجارت جام کمال اور ایران کے وزیرِ صنعت، کان کنی و تجارت محمد اتابک کے درمیان ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے دو روزہ دورہ پاکستان کے دوران ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔

وزارتِ تجارت کے مطابق ملاقات میں دونوں وزرا نے باہمی تجارت کو فروغ دینے، سرحدی رکاوٹوں کو ختم کرنے اور ترجیحی شعبوں میں پائیدار شراکت داری قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ جام کمال نے اس موقع پر کہا کہ اگر مواقع سے درست فائدہ اٹھایا جائے تو دونوں ممالک کی باہمی تجارت آئندہ برسوں میں 5 سے 8 ارب ڈالر سالانہ کی سطح تک پہنچ سکتی ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی وفود ترتیب دیے جائیں جن میں وفاقی و صوبائی چیمبرز آف کامرس کے نمائندگان شامل ہوں تاکہ مارکیٹ رسائی اور ریگولیٹری سہولت کاری کو فروغ دیا جا سکے۔

ملاقات میں دونوں ممالک نے موجودہ تجارتی راہداریوں اور سرحدی سہولتوں کے مؤثر استعمال پر بھی زور دیا۔ جام کمال نے کہا کہ پاکستان اور ایران کو جغرافیائی قربت کو استعمال کرتے ہوئے خطے میں ویسا ہی فائدہ حاصل کرنا چاہیے جیسا آسیان ممالک نے کیا۔

ایرانی وزیر محمد اتابک نے دونوں ممالک کے تاجروں کے باہمی اعتماد اور تیاری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب انہیں صرف حکومتوں کی جانب سے واضح اور مستقل سہولت کاری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے پاکستان میں بی ٹو بی ڈے کے انعقاد اور ایرانی تجارتی وفود بھیجنے کی پیشکش بھی کی۔

جام کمال نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ رفتار کو عملی تجارتی نتائج میں بدلنے کا وقت آ گیا ہے۔ ”یہ وہ لمحہ ہے جب سفارت کاری میں لوہا گرم ہوتا ہے، تاخیر چیزوں کو پیچیدہ کر دیتی ہے، ہمیں فوری اقدامات کرنے ہوں گے،“ انہوں نے کہا۔

دونوں وزرا نے زراعت، لائیو اسٹاک، توانائی، خدمات اور سرحد پار لاجسٹکس جیسے مخصوص شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔ ملاقات میں جوائنٹ اکنامک کمیشن کے آئندہ اجلاس کے جلد انعقاد اور نجی و سرکاری اسٹیک ہولڈرز کی بھرپور شرکت کو بھی یقینی بنانے پر اتفاق کیا گیا۔

بیان کے مطابق حالیہ علاقائی اور عالمی حالات نے پاکستان اور ایران کو مزید قریب کر دیا ہے اور دونوں ممالک اب اعلیٰ سطح کی سیاسی ہم آہنگی اور باہمی اعتماد کے ساتھ ایک نئے اقتصادی دور کی طرف بڑھنے کو تیار ہیں، جو پورے خطے کی تجارتی سمت کو بدل سکتا ہے۔

ایرانی صدر کی وزیراعظم ہاؤس آمد پر شہباز شریف کی جانب سے پرتپاک استقبال، گارڈ آف آنر پیش کیا گیا

ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے لیے وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو وزیراعظم کی جانب سے ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور انہیں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔

ایرانی صدر گزشتہ روز پاکستان پہنچے تھے اور اپنے دورے کے آغاز پر انہوں نے لاہور میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی، جہاں انہوں نے پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔ بعد ازاں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سے بھی غیر رسمی ملاقات کی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایرانی صدر چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے بھی علیحدہ ملاقاتیں کریں گے، جن میں پارلیمانی سطح پر تعاون کو فروغ دینے پر گفتگو ہوگی۔

وزیراعظم ہاؤس میں ایرانی صدر کے اعزاز میں ظہرانے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے، جس میں اعلیٰ حکومتی اور سفارتی شخصیات شرکت کریں گی۔

آج شام ایرانی صدر کی صدر مملکت آصف علی زرداری سے بھی ملاقات شیڈول ہے، جہاں دونوں صدور کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید وسعت دینے پر گفتگو ہوگی۔ صدر پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے اعزاز میں سرکاری عشائیہ بھی متوقع ہے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق ایرانی صدر کے دورے کو پاک ایران تعلقات میں ایک نئے باب کے آغاز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کا مقصد دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان معاشی و سفارتی روابط کو مزید مستحکم کرنا ہے۔

Similar Posts