پاکستان کی سیاست اور عدالتی نظام میں ایک اور انوکھا موڑ اُس وقت آیا جب سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کو 9 مئی کے ہنگامہ خیز کیس میں صرف اس لیے بری کر دیا گیا کیونکہ وہ اُس دن فلم ”منی بیک گارنٹی“ کے پریمئر میں موجود تھے۔
فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی کے تین مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے 196 پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کو 5 سے 10 سال تک کی سزائیں سنائیں۔ عمر ایوب، شبلی فراز، زرتاج گل اور صاحبزادہ حامد رضا بھی سزا پانے والوں میں شامل تھے۔ تاہم فواد چوہدری، زین قریشی اور خیال کاسترو سمیت 88 افراد کو بری کر دیا گیا۔
فواد چوہدری کی خوش نصیبی کی وجہ بنی ایک فلم۔ جی ہاں، فیصل قریشی کی فلم ”منی بیک گارنٹی“ کا لاہور میں ہونے والا پریمئر، جس میں فواد چوہدری ”چیف گیسٹ“ تھے۔ عدالت نے فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر فیصل قریشی کی گواہی اور دیگر شواہد کی بنیاد پر تسلیم کیا کہ فواد چوہدری واقعے کے وقت موقع پر موجود ہی نہیں تھے، اس لیے انہیں مقدمے سے بری کر دیا گیا۔
فواد چوہدری نے اس بریت پر ردعمل دیتے ہوئے فیصل قریشی، اپنے وکلا، اور اُن تمام افراد کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کی لاہور میں موجودگی کی تصدیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خوشی کا موقع نہیں، کیونکہ ان کے قریبی ساتھی اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

ادھر سوشل میڈیا پر یہ فیصلہ طنز و مزاح کا طوفان بن گیا۔
بیرسٹر شہزاد اکبر نے تبصرہ کیا، ’میرے دوست فواد چوہدری کو منی بیک گارنٹی نے بچا لیا، ثابت ہوا فلمیں دیکھنا صحت کے لیے بھی اور قانونی نجات کے لیے بھی مفید ہے!‘

آصف بشیر چوہدری نے لکھا، ’ساری پی ٹی آئی کو سزا، صرف فواد چوہدری بری، اور وہ بھی فلم کی گواہی پر؟‘

سبی کاظمی نے یاد دلایا کہ ’شاہ محمود قریشی کراچی میں تھے، مگر عدالتیں نہیں مانیں۔ مراد راس ماسٹر مائنڈ قرار پایا۔ مگر فواد چوہدری فلم دیکھ رہے تھے، سو بری ہوگئے۔‘

فلم ”منی بیک گارنٹی“ نے شائد باکس آفس پر زیادہ ہلچل نہ مچائی ہو، لیکن عدالت میں ضرور دھماکہ کر دیا۔ اور اس فیصلے نے یہ سوال ضرور چھوڑا کہ کیا اب ہر سیاسی رہنما کو اپنے دفاع کے لیے فلمی دعوت نامہ بھی تیار رکھنا چاہیے؟