خیبرپختونخوا میں تقریباً 200 ارب روپے سے زائد کی مشکوک لین دین اور مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف

0 minutes, 0 seconds Read

خیبرپختونخوا میں مالی سال 2024-25 کی آڈٹ رپورٹ میں ہوش رُبا مالی بے ضابطگیوں اور مشکوک اخراجات کا انکشاف ہوا ہے، جس نے سرکاری مالیاتی نظام کی شفافیت پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، صوبائی محکموں کی جانب سے انتظامی کمزوریوں، خدمات کی عدم فراہمی، غیرمنظم بجٹ سازی، مشتبہ خرد برد اور غیرقانونی بھرتیوں سمیت کئی پہلوؤں میں مالی بے قاعدگیاں دیکھی گئیں۔ تمام بے ضابطہ اور مشتبہ مالی لین دین کی مجموعی رقم تقریباً 18 ہزار 880 کروڑ روپے (یعنی 188.80 ارب روپے) بنتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف سات کیسز میں نو ارب چھببیس کروڑ اٹھہتر لاکھ روپے کی مشکوک مالی لین دین ہوئی، جو کہ انتظامی کوتاہیوں اور سروسز کی عدم فراہمی سے متعلق ہے۔ جعلی ادائیگیوں، فرضی اخراجات اور مبینہ خرد برد کے بائیس کیسز میں تقریباً اٹھانوے کروڑ اٹھائیس لاکھ روپے کی مشکوک سرگرمیاں سامنے آئیں۔

اسی طرح تین کیسز ایسے بھی رپورٹ ہوئے جن میں غیرمنظم بجٹ سازی اور فنڈز کے غیرشفاف اجرا کے نتیجے میں چودہ ارب چونسٹھ کروڑ چالیس لاکھ روپے کی مشکوک رقوم خرچ کی گئیں۔

آڈٹ رپورٹ میں غیرقانونی اور غیرمجاز اخراجات کے تئیس کیسز بھی درج ہیں، جن میں چار ارب بتیس کروڑ روپے سے زائد کی بلاجواز مالی ادائیگیاں کی گئیں۔

سب سے حیران کن انکشاف ٹھیکوں کی غیرقانونی اور غیرشفاف الاٹمنٹ سے متعلق آٹھ کیسز میں سامنے آیا، جن میں ایک سو سینتالیس ارب روپے کی مشکوک مالی لین دین کا ذکر ہے۔ تعمیرات اور ترقیاتی منصوبوں میں بھی مالی بے ضابطگیوں اور زائد ادائیگیوں کی نشان دہی کی گئی ہے، جس سے حکومت کو چالیس مختلف کیسز میں گیارہ ارب چونسٹھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔

تنخواہوں، الاؤنسز کی زائد ادائیگی اور غیرقانونی بھرتیوں سے متعلق سترہ کیسز میں تقریباً پچانوے کروڑ روپے بے ضابطہ طور پر ادا کیے گئے۔

یہ تمام تفصیلات خیبرپختونخوا میں سرکاری مالی معاملات میں شفافیت کے فقدان کو واضح کرتی ہیں۔ آڈٹ حکام نے ان تمام بے ضابطگیوں کی فوری تحقیقات اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے، تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے تاحال کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا۔

Similar Posts