تصاویر: ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے 80 سال: خوف اب بھی طاری

0 minutes, 0 seconds Read

دنیا کی تاریخ میں ایٹمی حملے کا پہلا شکار بننے والے جاپانی شہر ’ہیروشیما‘ میں آج اس دل سوز سانحے کے 80 سال مکمل ہونے پر ایک بڑی تقریب منعقد کی گئی، جس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین اور ہزاروں شہریوں نے صبح 8 بج کر 15 منٹ پر خاموشی اختیار کر کے انسانی تاریخ کے اس المناک لمحے کو یاد کیا۔

6 اگست 1945 کو امریکہ نے ہیروشیما پر یورینیم بم ”لٹل بوائے“ گرایا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباً 78 ہزار افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھے اور سال کے اختتام تک تابکاری کے باعث ہلاکتوں کی تعداد دسیوں ہزار تک جا پہنچی تھی۔ اس بمباری کے صرف تین دن بعد ناگاساکی پر ایک اور ایٹم بم گرایا گیا، جس کے بعد 15 اگست کو جاپان نے ہتھیار ڈال دیے۔

رائٹرزسے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ہیروشیما پیس میموریل پارک میں ہونے والی اس سالانہ یادگاری تقریب میں ریکارڈ 120 ممالک اور خطوں کے نمائندگان نے شرکت کی، جن میں ایٹمی طاقت رکھنے والے امریکہ اور اسرائیل بھی شامل تھے۔

ہیروشیما کے میئر کازومی ماتسوی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دنیا کے سیاسی رہنماؤں کو خبردار کیا کہ جوہری ہتھیاروں کا بڑھتا ہوا رجحان انسانیت کو ایک بار پھر تباہی کے دہانے پر لے جا سکتا ہے۔

 جاپان کے شہر ہیروشیما کے پیس میموریل پارک میں 1945 کے ایٹم بم حملے کے متاثرین کے لیے لوگ عبادت گاہ کے سامنے دعا کر رہے ہیں۔ (تصویر: بشکریہ رائٹرز)
جاپان کے شہر ہیروشیما کے پیس میموریل پارک میں 1945 کے ایٹم بم حملے کے متاثرین کے لیے لوگ عبادت گاہ کے سامنے دعا کر رہے ہیں۔ (تصویر: بشکریہ رائٹرز)

انہوں نے کہا, ’آج کی دنیا میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ ملک کا دفاع ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ نہ صرف ماضی کی سیکھ کو مٹا رہی ہے بلکہ عالمی امن کی کوششوں کو بھی زائل کر رہی ہے۔‘

انہوں نے عالمی قائدین سے اپیل کی کہ وہ ہیروشیما آئیں اور اپنی آنکھوں سے تباہی کی حقیقت کو دیکھیں تاکہ وہ جنگ کے بجائے امن کی راہ اپنا سکیں۔

 جاپانی وزیر اعظم شیگیرو ایشیبا جاپان کے شہر ہیروشیما میں ایٹم بم حملے کی 80 ویں برسی کے موقع پر سالانہ تقریب میں شریک ہیں۔ (تصویر: بشکریہ رائٹرز)
جاپانی وزیر اعظم شیگیرو ایشیبا جاپان کے شہر ہیروشیما میں ایٹم بم حملے کی 80 ویں برسی کے موقع پر سالانہ تقریب میں شریک ہیں۔ (تصویر: بشکریہ رائٹرز)

تقریب میں شریک 71 سالہ جاپانی شہری یوشیکازو ہوریے نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا, ’دنیا میں ایک بار پھر ویسے ہی حالات پیدا ہو رہے ہیں جیسے جنگ عظیم کے دوران تھے۔ یورپ ہو یا ایشیا، ہر طرف خوف اور بے یقینی ہے۔ میرے نواسے نواسیاں ہیں، میں چاہتا ہوں کہ وہ ایک پرامن دنیا میں زندگی گزاریں۔‘

 جاپان کے شہر ہیروشیما کے پیس میموریل پارک میں 1945 کے ایٹم بم حملے کے متاثرین کی یاد میں 80 ویں تقریب (تصویر: بشکریہ رائٹرز)
جاپان کے شہر ہیروشیما کے پیس میموریل پارک میں 1945 کے ایٹم بم حملے کے متاثرین کی یاد میں 80 ویں تقریب (تصویر: بشکریہ رائٹرز)

ایٹمی حملوں کے زندہ بچ جانے والے افراد، جنہیں ”ہیباکوشا“ کہا جاتا ہے، کو حملے کے بعد دہائیوں تک معاشرتی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد اب ایک لاکھ سے کم رہ گئی ہے۔

 جاپان کے شہر ہیروشیما کے پیس میموریل پارک میں 1945 کے ایٹم بم حملے کے متاثرین کے لیے لوگ عبادت گاہ کے سامنے دعا کر رہے ہیں۔ (تصویر: بشکریہ رائٹرز)
جاپان کے شہر ہیروشیما کے پیس میموریل پارک میں 1945 کے ایٹم بم حملے کے متاثرین کے لیے لوگ عبادت گاہ کے سامنے دعا کر رہے ہیں۔ (تصویر: بشکریہ رائٹرز)

جاپان، جو ایٹمی حملے کا واحد شکار ملک ہے، ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کی حامی پالیسی رکھتا ہے۔ تاہم، جاپان نے اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے ”TPNW“ پر نہ تو دستخط کیے ہیں اور نہ ہی وہ اس کا مبصر ہے۔

Similar Posts