سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق اعتراف کرلیا۔
اسلام آباد میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کہا کہ ملک میں جو نظام رائج ہے، وہ نہ آئینی ہے اور نہ ہی قانونی، بلکہ حقیقت میں ملک پر عملاً مارشل لا مسلط ہے۔
اسد قیصر نے اعتراف کیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع دینا سب سے بڑی غلطی تھی، اس سنگین غلطی پر قوم سے معافی مانگتے ہیں۔ آئندہ کسی ایکسٹینشن کو سپورٹ نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج کل شوشہ چھوڑا جا رہا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم لائی جا رہی ہے، 27 ویں آئینی ترمیم کا جو شو شہ آرہا ہے اس پر وکلا تحریک کا آغاز کر رہے ہیں اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارلیمان کے اندر اور باہر سب فورمز کو استعمال کریں گے۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی کے بقول اپوزیشن لیڈر کے لیے میرے نام کے حوالے سے باتیں درست نہیں ہیں، ہمیں امید ہے عمر ایوب جلد واپس آئیں گے اور وہی اپوزیشن لیڈر ہوں گے۔
اسد قیصر نے مزید کہا کہ میرٹ کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے کیسز سنے جائیں، اپوزیشن لیڈر سینیٹ و قومی اسمبلی کو جیسے نااہل کیا یہ تماشہ بنایا گیا، دنیا میں ممبران اسمبلی کا استحقاق بھی ہے اور وہ جیل کا دورہ بھی کر سکتا ہے، کیا ممبر اسمبلی کو جیل جانے سے روکنا خلاف قانون نہیں ہے؟
انہوں نے کہا کہ اس وقت تمام فیصلے عملاً انتظامیہ کے دباو کی وجہ سے ہو رہے ہیں، میرٹ پر سنے جائیں تو مقدمات میں کچھ نہیں رکھا، مجھے خدشہ ہے کہ ملک ایک شدید انارکی کی طرف جا رہا ہے۔
ہم کسی کو برا بھلا نہیں کہیں گے، محمود اچکزئی
اس موقع پر تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود اچکزئی نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک نہ کسی کو برا بھلا کہے گی اور نہ ہی اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرے گی۔
انہوں نے کہاکہ اس تحریک کا مقصد صرف اور صرف آئین کا تحفظ ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جب نواز شریف اور مریم نواز جیل میں تھے، تو وہ ان سے ملاقات کے لیے گئے، جہاں روزانہ 20 کے قریب لوگ ان سے ملاقات کرتے تھے، یہاں تک کہ موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی بھی ان سے جیل میں ملنے جاتے تھے۔
محمود اچکزئی نے کہاکہ موجودہ حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں، ضیاالحق اور مشرف کے دور میں بھی کچھ نہ کچھ شرافت باقی تھی، لیکن اب معاملات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ شہباز شریف کو بھی عوامی طاقت کا اندازہ نہیں۔
انہوں نے خبردار کیاکہ جب عوام بپھر جائیں تو بڑے سے بڑے حکمرانوں کا انجام سامنے آجاتا ہے، ہم عوام کو آئین کے تحفظ کے لیے منظم کریں گے۔
انہوں نے مطالبہ کیاکہ ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جائے جس کے تحت عدلیہ کو آزاد رکھا جائے، میڈیا پر قدغنیں ختم کی جائیں اور اگر ایسا ہوا تو وہ بھی اس معاہدے پر دستخط کریں گے، بصورت دیگر وہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوں گے۔
ملکی معیشت کی تباہی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں، محمد زبیر
اس پریس کانفرنس میں سابق گورنر سندھ محمد زبیر عمر نے معیشت کے حالات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے معیشت کی تباہی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں 38 فیصد مہنگائی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی، اور ہفتہ وار مہنگائی 50 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
زبیر عمر کے مطابق اس وقت قریباً سوا 11 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ بے روزگاری کی شرح 22 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 30 فیصد ہے جو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔
زبیر عمر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں قرضوں میں 19 ٹریلین کا اضافہ ہوا، جب کہ حالیہ ساڑھے تین سال میں یہ اضافہ 38 ٹریلین تک پہنچ گیا ہے۔ ان کا سوال تھا کہ یہ قرضے کہاں استعمال کیے گئے؟
انہوں نے الزام لگایا کہ ایک طرف نواز شریف اور شہباز شریف آئی ایم ایف سے قرض لینے کو شرمناک قرار دیتے ہیں، اور دوسری طرف قرض ملنے پر ایک دوسرے کو مبارکباد بھی دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایس آئی ایف سی کے ذریعے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے دعوے کیے گئے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت غیر ملکی سرمایہ کاری گزشتہ 50 برس کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔
زبیر عمر نے مزید کہا کہ موجودہ جی ڈی پی گروتھ ریٹ صرف 1.62 فیصد ہے جبکہ آبادی 2.6 فیصد کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اپریل 2022 میں 50 ہزار روپے کی تنخواہ کی قدر آج صرف 20,800 روپے رہ گئی ہے، جس سے عوام کی قوتِ خرید میں تین سال کے دوران 60 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ ملک میں اس وقت قریباً 2 کروڑ 70 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت تقریباً 2 کروڑ 70 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جو باعثِ شرم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 40 فیصد بچوں کی نشوونما متاثر ہو رہی ہے، اور پبلک سیکٹر ادارے ایک ٹریلین روپے سے زائد کا نقصان برداشت کر رہے ہیں۔
سابق گورنر کا کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد کے وقت ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر تھے، جو کچھ ہی عرصے میں 4 ارب ڈالر تک گر گئے، لیکن تب ڈیفالٹ کا خطرہ کیوں محسوس نہیں کیا گیا؟ ان کے مطابق موجودہ حکومت ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے نہیں، بلکہ اقتدار کے لیے آئی ہے۔