ٹرمپ کے ٹیرف لگانے کے بعد بھارت میں امریکی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ گئی

0 minutes, 0 seconds Read

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارتی مصنوعات پر ٹیرف لگانے کے بعد بھارت میں متعدد امریکی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ گئی ہے، جس میں کاروباری شخصیات اور وزیراعظم نریندر مودی کے حامی واشنگٹن کی جانب سے عائد درآمدی ڈیوٹیوں کے خلاف امریکا مخالف جذبات کو ہوا دے رہے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیکس لگانے کے بعد بھارت میں سوشل میڈیا اور عوامی سطح پر مقامی مصنوعات خریدنے اور امریکی مصنوعات کو چھوڑنے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ اگرچہ تاحال فروخت میں کمی کا کوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آیا، لیکن برآمد کنندگان کو جھٹکا لگا ہے اور دہلی و واشنگٹن کے تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔

بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد امریکی ٹیرف: کون سے شعبے متاثر ہورہے ہیں؟

بھارتی صنعتکاروں اور وزیراعظم نریندر مودی کے حامیوں نے اس موقع کو ”خود انحصاری“ کے نعرے سے جوڑتے ہوئے مقامی مصنوعات کو اپنانے کی اپیل کی ہے۔

اتوار کے روز وزیراعظم مودی نے بینگلور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خود کفالت پر زور دیا اور کہا کہ بھارت کے آئی ٹی ماہرین دنیا کے لیے ٹیکنالوجی بناتے ہیں، مگر اب وقت آ گیا ہے کہ وہ ملک کی ضروریات کو ترجیح دیں۔

جلد کی دیکھ بھال کی مصنوعات بنانے والی معروف کمپنی ’واو اسکِن سائنس‘ کے بانی منیش چوہدری نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت اپنی مصنوعات کو دنیا بھر میں مقبول کرے۔

بھارت پر ٹیرف عائد کئے ابھی چند گھنٹے ہوئے ہیں، روسی تیل کی خریداری بند نہ کی تو مزید ٹیرف لگایا جائے گا، ٹرمپ

اسی دوران ڈرائیو یو کے سی ای او راہول شاستری نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کو بھی اپنا ٹوئٹر، یوٹیوب اور فیس بک بنانے کی ضرورت ہے۔

ادھر بی جے پی سے منسلک تنظیم ’سودیشی جاگرن منچ‘ نے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالیں اور عوام سے اپیل کی کہ وہ امریکی مصنوعات کا استعمال ترک کردیں۔ تنظیم کے رہنما اشونی مہاجن کے مطابق ”یہ قوم پرستی اور حب الوطنی کا معاملہ ہے۔“

تاہم بھارت کے تاجروں اور صنعکاروں کا ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے، اترپردیش کے شہر لکھنؤ میں میکڈونلڈز کے ایک صارف راجت گپتا نے کہا، ’’ٹیرف سفارتی مسئلہ ہے، میرے ”میک پف“ یا کافی کو اس میں نہ گھسیٹا جائے۔‘‘

بورس جانسن کی نام لیے بغیر بھارت پر تنقید، 50 فیصد ٹیرف کے فیصلے کی کھل کر حمایت

حیران کن بات یہ ہے کہ اسی دوران امریکی الیکٹرک کار ساز کمپنی ٹیسلا نے نئی دہلی میں اپنا دوسرا شوروم کھول لیا، جس میں بھارتی وزارتِ تجارت اور امریکی سفارت خانے کے حکام بھی شریک ہوئے۔

یہ تمام حالات بھارت اور امریکا کے معاشی تعلقات میں ایک نئے موڑ کی نشان دہی کر رہے ہیں، جہاں تجارتی فیصلوں کا اثر صارفین اور عوامی جذبات پر براہ راست پڑ رہا ہے۔

Similar Posts